ریبیز سے بچاؤ، انسانوں اور جانوروں پر اس کے اثرات، روک تھام کے بارے میں شعور پیدا کرنے اور اس خوفناک بیماری کو شکست دینے کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ عوام میں ریبیز سے متعلق آگاہی سے زیادہ خوف وہراس پایا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ناف میں 14 ٹیکے لگتے ہیں۔ یہ پرانا طریقہ ہے اب جدید علاج ہے۔
Published: undefined
کتے چمگادڑ، بندر، بھیڑیے، لومڑی عموماً ریبیز پھیلانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں آوارہ کتے لوگوں کو اس وائرس سے متاثر کرنے کا سب سے زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں۔ یہ وائرس مرکزی اعصابی نظام کو ہٹ کرتا ہے۔ ایک بار کلینیکل علامات جب ظاہر ہو جائیں تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد اس کے تدارک کے لیے ویکسین لگوائی اور وہ صحت یاب ہوئے ہوں۔
Published: undefined
اس لیے پہلی ویکسین جانور کے کاٹنے کے بعد جلد از جلد مریض کو لگ جانا چاہیے۔ ویکسین کی مقدار کا تعین ڈاکٹر طبی معائنے کے بعد مریض کی عمر، جنس، وزن اور چوٹوں کے آس پاس کے حالات کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے۔ ڈاکٹر ہی فیصلہ کرے گا کہ آپ کو ریبیز تھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ احتیاطی طور پر بہتر ہو گا کہ ویکسین کسی مستند ادارے سے لگوائی جائے۔ کچھ افراد متاثرہ حصوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں یا فرسٹ ایڈ کے طور پر زخم پر تیل اور ہلدی لگا لیتے۔ ایسا کرنے سے معالج کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ انفیکشن کے بڑھ جانے کے امکانات کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
ریبیز ہر کتے کے کاٹنے سے نہیں پھیلتی ایسے مریض جنہیں کتے کے کاٹنے سے معمولی خراشیں آئیں، خون بھی بہت کم نکلا تو ایسے مریضوں کو بس ابتدائی امداد دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایسے مریض جنہیں کتے نے بےدردی سے کاٹا ہو اور کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوا ہو انہیں دیکھ کر دفعتاً یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ریبیز کا شکار ہیں۔
Published: undefined
ریبیز کی ابتدائی علامات میں بخار کا ہونا، متاثرہ جگہ پر سنساہٹ سی محسوس ہونا، متلی، اشتعال انگیز طرز عمل، کوآرڈینیشن کی کمی، ہائیڈروفوبیا ( پانی کا خوف) ایروفوبیا (تازہ ہوا کا خوف) پیدا ہوتا ہے۔ باؤلے کتوں کے حوالے سے لوگوں کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ریبیز صرف آوارہ کتوں سے پھیلتی ہے۔ ویٹنری اسپیشلسٹ کے مطابق 80 فیصد اسٹریٹ ڈاگ جبکہ 20 فیصد ڈومیسٹک ڈاگ ریبیز کے پھیلاؤ میں ملوث ہوتے ہیں۔ پالتو کتے جب تک کہ وہ ویکسین کے عمل سے نہ گزرے ہوں وبال جان بن سکتے ہیں۔
Published: undefined
ریبیز سے متاثر ہو جانے کے بعد کتے کی عمر عموماً چھے سے سات دن ہوتی ہے لیکن اس دوران وہ نہ صرف اس مرض کو پھیلا چکا ہوتا ہے بلکہ انسانوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ جب دیکھیں کہ آپ کا پالتو کتا پانی نہیں پی رہا، کچھ نہیں کھا رہا، سر مختلف طریقوں سے ہلا ہلا کر عجیب حرکتیں کر رہا ہے، کچھ خیالی اشیاء پکڑنے کے لیے زمین میں کھدائی کر رہا ہےتو پھر محسوس کر لینا چاہیے کہ وہ خطرناک ہو چکا ہے۔
Published: undefined
پہلے تو دور دراز کے علاقوں سے مریض رپورٹ ہوتے تھے مگر اب کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان جیسے گنجان آباد شہروں سے بھی مریض آ رہے ہیں۔ یہ مریض بتاتے ہیں کہ ان کے گلی محلوں میں آوارہ کتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ کتے ٹولیوں کی صورت میں کچرے کے ڈھیر پر خوارک کے حصول کے لیے آتے ہیں، کچرے کے شاپر پھاڑتے ہیں اور اگر کوئی ان کے قریب سے بھی گزر جائے تو اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ خواتین، بچے اور بزرگ دہشت کے باعث گھروں سے کم نکلتے ہیں۔ ایسی اضطرابی کیفیت میں مقامی لوگ کتوں کو مار ڈالنے کی صلاح دیتے ہیں۔
Published: undefined
کتوں کو گولیاں مار کر یا زہریلے ٹیکے لگا کر تلف کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ یہ تو بے رحمانہ اقدام ہے لیکن کتے انسان بھی نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں آوارہ کتوں کی ویکسین اور ان کی تولیدی صلاحیت ختم کر کے ریبیز وائرس پر قابو پایا گیا ہے۔ پاکستان میں تاحال کوئی سینٹرل پالیسی واضح نہیں کی جاسکی جو کتوں کی نس بندی پر عمل درآمد کروا سکے کیونکہ عام پالیسیز سیاست کے زیر اثر چلی جاتی ہیں۔
Published: undefined
فارماسسٹ ایسوسی ایشن سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دوا ساز اداروں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اتنی حساس ویکسین بڑے پیمانے پر تیار کر سکیں۔ لہذا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ خام مال چین سے لے کر اسے ری فل کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین یا بائیو ٹیکنیکل پروڈکٹ نہیں بنتی۔ نتیجتاً موجودہ ویکسین کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ مہنگی ہیں اور متعدد خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ غربت یا اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہو کر متاثر شخص کو ویکسین لگوانے میں تاخیر کر دیتے ہیں یا لواحقین کی جانب سے اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث ریبیز ڈیتھ ریٹ بڑھ رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز