پاکستان میں اس وقت پانی، کوئلے، فرنس آئل، ایٹم، سورج اور ہوا سے بجلی بنانے کی پیداواری گنجائش چالیس ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر زراعت، صنعت و گھریلو ضروریات کو ملا کے زیادہ سے زیادہ کھپت اٹھائیس ہزار میگاواٹ ہے۔ البتہ بجلی ساز کمپنیوں کو اس بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے بھی پیسے دینے پڑ رہے ہیں، جو پیدا ہی نہیں ہو رہی اور یہ پیسے بھی عام آدمی کے بل میں لگ کے آ رہے ہیں۔
Published: undefined
سن دو ہزار دس تک بہانہ تھا کہ لوڈشیڈنگ قومی مجبوری ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار کم ہے۔ اس قلت کے سبب ٹیکسٹائل سمیت تمام ایسی صنعتوں کا بتدریج بھٹہ بیٹھ گیا، جن کے طفیل پاکستان کو قیمتی زرِ مبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ مگر پچھلے پانچ برس میں بالخصوص ضرورت سے زائد بجلی ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکا اور سرکار بجلی کی بچت کے لیے کاروباری مراکز کی رات گئے جلد بندش اور بجلی چوروں کے خلاف بھرپور مہم ایسے چلا رہی ہے جیسے بجلی کی شدید قلت ہو۔
Published: undefined
صنعت کاری کا جو پہیہ قلت کے دور میں جام ہوا وہ کثرت کا دور شروع ہونے کے باوجود پوری طرح رواں نہیں ہو سکا۔ حالانکہ اس عرصے میں سابق سے بھی سابق انصافی حکومت نے صنعتی و کاروباری شعبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لگ بھگ ساڑھے تین ارب ڈالر کے مساوی سبسڈی اور رعایتی قرضے بھی بانٹ ڈالے تاکہ صنعت کار اپنے کارخانوں کو اپ گریڈ کر سکیں یا پھر باہر سے نئی مشینیں منگوا سکیں۔
Published: undefined
پھر یوں ہوا کہ ایک صاحب نے تو نئی مشینری منگوانے کی رعایت کے پردے میں ذاتی استعمال کے لیے جہاز بھی منگوا لیا۔کوئی آڈٹ یا باز پرس نہیں کہ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے اور ان سے وہ کون سا صنعتی انقلاب آیا جو نظر ہی نہیں آ رہا۔ اگر صنعت کا پہیہ چل پڑتا تو شاید اضافی بارہ ہزار میگاواٹ بجلی خرچ ہونے سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ۔یا کم ازکم دس لاکھ بے روز صنعتی کارکنوں کی تعداد کچھ تو کم ہوتی۔ بس اتنا ہوا کہ صنعت کاروں کی مدد کے لیے اضافی نوٹ چھاپنے کے سبب افراطِ زر کا بحران اور شدید ہو گیا۔
Published: undefined
قلت ہو نہ ہو مگر چوری تو بہرحال چوری ہے۔ سرکاری اعتراف کے مطابق بلوں کی عدم ادائیگی اور چوری کی مد میں خزانے کو پانچ سو نوے ارب روپے سالانہ کا نقصان درپیش ہے اور یہ چوری بھی میرے تیرے بلوں میں ڈال کے ہمیں پوری کرنا پڑ رہی ہے ۔
Published: undefined
خیبر پختون خواہ اور اندرونِ سندھ کے کئی علاقوں بشمول کراچی کی بہت سی کچی آبادیوں میں چوری کی شرح ساٹھ فیصد سے بھی اوپر ہے، جو آبادیاں متعلقہ اہل کاروں کی ملی بھگت سے اس چوری میں سینہ ٹھونک کے شامل ہیں۔ ان کے خلاف جب عملہ کارروائی کرنے جاتا ہے تو اس کا راستہ بستی کی عورتیں اور بچے روک لیتے ہیں اور ڈنڈوں سے مسلح مرد حضرات پتھراؤ کرتے ہیں۔ چنانچہ اب اس کا حل یہ سوچا گیا ہے کہ جن علاقوں میں چوری وبائی حد تک ہے۔ وہاں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کر دی جائے۔ سرکار کا خیال ہے کہ جہاں اس کی ایک نہ چلی وہاں نجی کمپنیاں پیسہ وصول لیں گی۔
Published: undefined
بجلی چوری کے خلاف اعلانِ جہاد ضرور ہو گیا ہے۔ پر وہ جو کہتے ہیں کہ آپ کسی کو کچا پیاز کھانے سے تب ہی منع کر سکتے ہیں جب خود پیاز کھانا چھوڑیں۔ نگراں وزیرِ اعظم کا دعوی ہے کہ سوائے بجلی سے متعلق محکموں کے فوج سمیت کسی سرکاری ادارے کو مفت بجلی کی سہولت حاصل نہیں۔ دو روز قبل ہی موقر انگریزی روزنامہ ڈان میں خبر شائع ہوئی کہ حکومتِ پنجاب بجلی کی سبسڈی کی مد میں صوبائی ملازموں کو چار اعشاریہ چار ارب روپے، وزیرِاعلی ہاؤس کو اسی ملین روپے، گورنر ہاؤس کو لگ بھگ تینتیس ملین روپے اور نچلی سے اعلی عدلیہ تک کو تین ارب روپے سالانہ کی سبسڈی دے رہی ہے۔
Published: undefined
تکنیکی اعتبار سے اگرچہ حکومت اس بجلی کی پوری قیمت ادا کر رہی ہے مگر باریک کام یہ ہے کہ اگر ایک جج یا ایک بیوروکریٹ کی بجلی کا ماہانہ بل ایک لاکھ روپے ہے تو اس میں سے پچاس ہزار روپے صوبائی حکومت کا خزانہ ادا کرے گا اور ان سب اللوں تللوں کی بھرپائی بالاخر میں اور آپ مزید ٹیکسوں اور بجلی کے بھاری بلوں کی صورت میں کریں گے۔
Published: undefined
اسی حکومتِ پنجاب نے گیس چوروں کے خلاف بھی مہم شروع کر دی ہے اور اسی انداز کی روایتی پکڑ دھکڑ کا ڈرامہ ہو رہا ہے جیسے ہر نیا ایس ایچ او نئے تھانے میں تبادلے کے بعد علاقے کے بدمعاشوں پر دھاک بٹھانے کے لیے چھاپہ مار مہم شروع کرتا ہے اور پھر چند دنوں پر کچھ لے کچھ دے کے اصول پر مک مکا ہو جاتا ہے ۔
Published: undefined
یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ سابقہ ادوار میں کس لال بھجکڑ کے مشورے پر ٹرانسپورٹ کو مہنگے درآمدی پیٹرول اور ڈیزل سے سی این جی پر منتقل کرنے کے لیے ارب ہا روپے کی جو سرمایہ کاری ہوئی، اس کے سبب پاکستان کے گیس کے ذخائر کس بے دردی سے خرچ ہوئے اور پھر جب گیس کی قلت پیدا ہوئی تو یہ بھاری سرمایہ کاری بھی بخارات بن کے اڑ گئی۔
Published: undefined
گزشتہ کئی دہائیوں میں ایسی کتنی صنعتوں اور زرعی شعبے پر ہاتھ ڈالا گیا جو براہ راست گیس چوری میں ملوث رہے اور ان کی پشت پر کسی نہ کسی بڑے کا ہاتھ ہونے کے سبب کوئی چھوٹا ان پر ہاتھ نہ ڈال سکا۔چنانچہ کل تک گیس میں خود کفیل پاکستان آج اپنی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قطر جیسے دوستوں پر تکیہ کر رہا ہے۔ جبکہ ایران ہماری دیوار سے دیوار ملی ہوئی ہے۔ لیکن اس کی گیس اور تیل اس لیے نہیں خریدا جا رہا ہے کہ کہیں ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کرنے والا امریکہ خفا نہ ہو جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ پر مشتمل اربوں روپے کے کاروبار پر بھی بھرپور ہاتھ ڈالا جائے گا۔ مگر کون سا مائی کا لال اسمگلر ایسا ہے جو تنِ تنہا یہ کاروبار کر سکے۔
Published: undefined
ساتھ ہی ایک نیا راگ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بس کچھ دن کی بات ہے قسمت بدلنے والی ہے۔ خلیجی ریاستوں سے کانکنی، زراعت و مواصلات سمیت پانچ کلیدی شعبوں میں اگلے تین سے پانچ برس میں پچھتر ارب سے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنے والی ہے۔ (واضح رہے کہ موجودہ نگراں حکومت کی مدت زیادہ سے زیادہ چند ماہ ہے)۔
Published: undefined
جب پوچھیں کہ کیا یہ پہلے کی طرح زبانی کلامی یقین دہانی ہے یا اس بابت کسی یادداشت یا سمجھوتے پر دستخط بھی ہوئے ہیں؟ اور گوادرعمیں ایک آئل ریفائنری پر دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق سعودی ولی عہد کے چار برس پرانے وعدے کا کیا ہوا؟ ایسے سوالات کا سیدھا جواب دینے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ بس آپ دیکھتے جائیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور جو ہونے جا رہا ہے اسے دیکھ کے آپ جیسے شکی مزاج صحافیوں کی آنکھیں پھٹی رھ جائیں گی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آنکھیں تو آج بھی پھٹی پڑی ہیں۔ اور کتنی پھٹیں گی؟
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز