مجھے اندازہ ہے کہ بہت سے حضرات اس بات سے متفق نہیں ہوں گے اور ان کی رائے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی ہوں۔ لیکن نواز شریف کے وطن واپسی کی تقریر تو سب نے سن رکھی ہو گی۔ مخالف پارٹی (معلوم نہیں کہ وہ پارٹی مخالف رہی بھی ہے کہ نہیں لیکن فرض کرنے میں کیا حرج ہے) تو مخالف پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے میاں صاحب فرماتے ہیں، ''ہماری خواتین کتنے آرام سے بیٹھی ہوئی ہیں ڈھول کی تھاپ پر یہاں کوئی رقص نہیں کر رہیں؟ تو آپ میری بات کو سمجھے کہ نہیں سمجھے؟‘‘
Published: undefined
جب پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے قائدین کے ایسے سوچ وچار ہوں تو اس صورت حال میں عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ویسے یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا سیاسی قائدین کو رقص سے تکلیف ہے یا رقاصاؤں سے؟
Published: undefined
رقص اظہار اور فن کی ایک شکل ہے، جس میں اکثر موسیقی کی تال پر جسم کی حرکات شامل ہوتی ہیں۔ رقص جذبات کا اظہار کر سکتا ہے، کہانیاں سنا سکتا ہے، یا محض تخلیق کاری کی شکل بن سکتا ہے۔ کلاسیکی ڈانس سے لے کر ہپ ہاپ تک رقص کے بہت سے مختلف انداز ہیں، ہر ایک کی اپنی منفرد تکنیک اور ثقافتی اثرات ہیں۔
Published: undefined
سماجی نقطہ نظر سے رقص ایک ثقافتی اور سماجی عمل ہے، جو معاشرے کے اندر اہمیت رکھتا ہے۔ اسے علامتی مواصلات کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، شناخت اور سماجی اقدار کے اظہار کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ رقص اکثر کسی خاص ثقافت کے اصولوں اور روایات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ دو افراد کے لیے محبت میں اجتماعی طور پر جڑنے کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ بھی بن سکتا ہے۔ سماجی ماہرین رقص کا مطالعہ انسانی ثقافت کے ایک حصے کے طور پر کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رقص انسانی اظہار کی ایک عالمگیر شکل ہے۔
Published: undefined
اور جہاں تک رقاصاؤں کی بات ہے تو ایسی دنیا میں جو اکثر کبھی نہ ختم ہونے والے ڈانس فلور کی طرح محسوس ہوتی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ جو ڈانس کرنے کی ہمت رکھتی ہیں ہم ان خواتین کے ارد گرد کے سنگین خدشات کو دور کریں۔ بظاہر وہ لاپرواہ عورتیں، جن کا جسم تال پر بے ساختہ تھرکنے لگتا ہے، شاید معاشرے کی سب سے بدنام زمانہ عورتیں ہوں۔
Published: undefined
سب سے پہلے، آئیے اس دلیری کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک عورت کو ڈانس کرنے کے لیے ہمت درکار ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود سے لطف اندوز ہونے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ وہ سوچتی ہو گی کہ وہ کون ہے؟ یہ خواتین واضح طور پر سماجی اصولوں کی پرواہ کیے بغیر جمود کو چیلنج کرنے کے لیے نکلی ہوں گی۔
Published: undefined
اب، یہاں اصل خطرے کو نہ بھولیں- ان کے چہروں پر مسکراہٹ! ناچنے والے اکثر مسکراتے، مزے کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ زندگی کے تناؤ اور پریشانیوں سے آزاد ہو رہے ہیں۔ تو میرے ہم وطنو اگلی بار جب آپ کسی خاتون کو رقص کرتے ہوئے دیکھیں گے، تو یاد رکھیں کہ آپ ایک ایسی عورت کو دیکھ رہے ہیں جو برابری پر یقین رکھتی ہے اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔ یہ بیمار معاشرے کے لیے واقعی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز