گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصہ میں منہگائی کے عفریت نے، جس طرح عام آدمی کو دبوچا ہے، اس پر اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی کہاں ہے۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن ذرائع آمدن ہیں کہ سکڑتے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
معاشی مسائل نے زندگی کو پھیکا اور بے سکون کر دیا ہے۔ بے یقینی کی ایسی فضا ہے کہ، کل کی فکر میں دستیاب وسائل کو استعمال کرتے بھی ہاتھ رک جاتا ہے۔ جب زندگی کو رواں رکھنا ہی ایک جد و جہد بن جائے تو سکون اور راحت کے معنی بدل جاتے ہیں۔
Published: undefined
ہر دو ہفتے بعد پٹرول کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے سے اشیائے صرف کی قیمتوں پہ آتے اثر کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جب بظاہر معقول آمدن والے خاندانوں کے دستیاب وسائل کا منہگائی سے تقابل کیا جائے تو بنیادی ضرورتوں کو محض پورا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ آسائشوں کا ذکر ہی کیا، صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خواراک، تعلیم ، صحت و صفائی جیسے ترجیحی اخراجات پر بھی سمجھوتہ نا گزیر ہو چکا ہے۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بھر مار ہے کہ جہاں منہگائی سے نڈھال شہری کپکپاتی آوازوں اور بھیگی آنکھوں سے اپنی بپتا، ان کانوں کو سنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ظرف سماعت سے محروم ہیں۔ تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کسی کے پاس بھی اس ہوش ربا منہگائی، بے روز گاری، تعلیمی مسائل، منہگے علاج اور ٹیکسوں میں اس قدر اضافے سے بچنے کا کوئی ممکنہ حل موجود نہیں، جس کی بدولت مایوسی کی ایک ایسی فضا قائم ہو گئی ہے کہ فی الوقت جس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نظر نہیں آتا۔
Published: undefined
اس سال ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت منہگائی کی شرح میں 27.38 اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس کا اثر براہ راست ضرورت کی تقریباً ہر شے کی قیمت پر پڑے گا۔
Published: undefined
ملک کے بیشتر خاندان انہی مسائل سے دو چار ہیں اور اس کا براہ راست اثر ان خواتین پر پڑ رہا ہے، جنہیں محدود آمدن کے ساتھ اپنے خاندان کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی جنگ کا سامنا ہے۔ ایک عورت کی گھریلو زندگی کا مطلب اپنے آپ کو روزانہ ہزاروں معمولی مسائل پر قربان کرنا ہے۔ پدر سری روایات کی ماری ہوئی عورتیں اپنی مشکل کہیں بھی تو کس سے، بچت کریں بھی تو کیسے؟
Published: undefined
اسکولوں کی فیس میں ہر کچھ عرصے بعد اضافہ ہو رہا ہے، سکول بس کے کرائے ایک سال میں دو گنا ہو چکے ہیں، بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، تو ایسے میں معیار زندگی کو کیسے بر قرار رکھا جائے؟ رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ میدانی علاقوں میں جھلسا دینے والی گرمی اور شدید حبس آلود موسم میں چند گھنٹے کی نیند کے لیے جو سارا خاندان ایک ایئر کنڈیشنر پر انحصار کرتا تھا، اسے چلائے رکھنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔
Published: undefined
تعلیم، خواراک اور صحت پر ہونے والے ماہانہ اخراجات میں ترجیح قائم کرنے کا مشکل فیصلہ گھر کی چار دیواری میں رہنے والی اس عورت کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے پہلے بھی کوئی جائے پناہ نہیں تھی اور کل ان ضروری اخراجات سے کٹوتیوں کے دور رس اثرات کا سامنا بھی اسے ہی کرنا ہے۔
Published: undefined
کسی نے شاید ہی محسوس کیا ہو کہ منہگائی کے اس طوفان نے گھریلو خواتین کو سماجی تنہائی کا شکار بنا دیا ہے۔ افراد خانہ کی ضروریات کی فکر میں گھلتی عورت کے پاس نہ وقت بچتا ہے اور نہ ہی وسائل، کہ وہ خود پر کچھ خرچ کر سکے۔ دوستوں رشتہ داروں سے میل جول، ذاتی ضروریات کی فکر یا صحت کا خیال، کچھ بھی ممکن نہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف معیار زندگی کو بر قرار رکھنا ایک ایسا تکلیف دہ دباؤ ہے کہ جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس سب کا نتیجہ ہر وقت کے ایک ایک غیر محسوس اضطراب اور ڈپریشن کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اخراجات کے دباؤ کا ہی سبب ہے کہ سکون کی نیند بھی میسر نہیں ہوتی اور ہمہ وقت دل وسوسوں میں گھرا رہتا ہے۔
Published: undefined
معیشت اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے والے دماغ اس صورت حال کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوششیں ضرور کر رہے ہوں گے لیکن اب کوئی حرف تسلی کار گر نہیں ہے۔ اس منہگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں، شاید ہی انھیں دکھائی دیتا ہو۔
Published: undefined
منہگائی کی اس خوف ناک اور دہشت ناک صورت حال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کن حالات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ وہ عورت جو گھر بیٹھ کر کھانے کے طعنے بھی سنتی ہے اور حالات کے جبر کی سب سے زیادہ شکار بھی ہے، اب کسی مسیحا کی منتظر بھی نہیں۔
Published: undefined
اب بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیں، اس تنگی سے نبرد آزما ہونے کی کوئی سبیل، کوئی راستہ دکھائیں کہ صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے۔ سارا ملک پریشان ہے۔ سر جوڑ کر بیٹھیں، کوئی صائب حل نکالیں اور عام آدمی کی مشکلات میں کمی لائیں۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula