ایسی اکتاہٹ، افسردگی، تفکرات اور بے چارگی ہے کہ فکریں چہروں سے اُمڈ رہی ہیں۔ کوئی ایک بندہ ہاتھ میں مائیک پکڑے پوچھتا ہے، مہنگائی ہو گئی ہے آپ کے حالات کیسے ہیں؟ جواباً منہ سے ٹوٹے پھوٹے چند فقرے نکلتے ہیں، ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ ایسی کوئی ایک ویڈیو نہیں ہے، ایسی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
Published: undefined
ایک ویڈیو میں تو ایک موٹر سائیکل سوار انتہائی متانت والا ہے، کسی طرح بھی نہیں لگ رہا تھا کہ غریب ہے یا اس کے حالات مشکل ہوں گے۔ ایک مائیک والا بس ایک فقرہ کہتا ہے کہ پیٹرول مزید مہنگا ہو گیا ہے۔ وہ شخص کچھ توقف کے بعد بڑے حوصلے سے جواب دیتا ہے، ’’یہ بھی سہہ لیں گے۔‘‘ یہ فقرہ ابھی مکمل نہیں ہوتا لیکن آنسو ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کے طرح آنکھ سے گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہے تا کہ آنسوؤں کا سیلاب بند نہ توڑ پائے لیکن جنموں کے مارے آنسوکہاں رکتے ہیں، غیرت ایسی ہے کہ فوراً اپنے سر پر ہیلمٹ پہن لیتا ہے تاکہ اُسے روتا ہوا نہ کوئی دیکھ لے۔
Published: undefined
یہ کیسی بے بسی ہے، آپ چیخنا چاہتے ہیں، آپ چلانا چاہتے ہیں، آپ حکومت کو کوسنا چاہتے ہیں، آپ حاکم اور منصف کا گریبان پکڑنا چاہتے ہیں لیکن آپ اپنا غصہ، اپنا غم اندر ہی اندر پیتے جا رہے ہیں، اپنی ہی موٹر سائیکلیں توڑتے جا رہے ہیں اور یہ گھن آپ کو اندر ہی اندر کھاتا جا رہا ہے۔ ریاست جبر کے سامنے آپ خاموش ہیں، کوئی سننے والا نہیں اور احتجاج کرنے والے جیلوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان ایک روایتی معاشرہ ہے، جہاں خاندان کا سارے کا سارا معاشی بوجھ زیادہ تر ایک مرد پرڈال دیا جاتا ہے۔ کہاں اسکول چھوڑتے ہی فکر معاش شروع ہوتی ہے اور پھر زندگی بھر یہ تگ و دو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بیٹی یا بہن کے جہیز سے شروع ہونے والی یہ جمع تفریق موت کی آخری ہچکیوں تک جاری رہتی ہے۔ اس مہنگائی اور اس بیروزگاری میں ایک غریب مرد اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ اسے کوئی چھوٹا سا سوال کرتا ہے اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی رونا شروع کر دیتا ہے۔
Published: undefined
اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ بیوی کو کیسے بتائے کہ چیزیں اور اخراجات اس کے بس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، وہ بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو کیسے سمجھائے کہ وہ سب کا بوجھ تنہا نہیں اٹھا سکتا، وہ اپنے بچوں کو کیسے بتائے کہ میں تمہارے لیے نئے کپڑے، نئے جوتے لینے کی سکت نہیں رکھتا۔
Published: undefined
مہنگائی، بیروزگاری یا کم تنخواہوں کی وجہ سے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب ایک باپ، بڑا بھائی یا بڑا بیٹا باقی مردوں کی نسبت خود کو ناکام تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ آگے پیچھے گاڑیوں کی ریل پیل دیکھتا ہے، امرا کے بڑے بڑے شاپنگ بیگز دیکھتا ہے تو خودکو ناکارہ تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مرد اپنا موازنہ باقی لوگوں سے کرتا ہے اور خود اپنے جسم سے نفرت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب ایک مرد اپنا دکھ نہ اپنی ماں، نہ باپ، نہ بیوی اور نہ ہی اپنے بچوں سے شیئر کر پاتا ہے۔
Published: undefined
ایسے لمحات میں فقط خودکُشیاں باقی بچتی ہیں، لڑائی جھگڑے سروں پر کھڑے رہتے ہیں، تنہائی میں اپنا ہاتھ اور اپنا ہی گریبان ہوتا ہے یا پھر سڑک پر کوئی آپ سے سوال پوچھتا ہے اور آپ جواب دینےکی بجائے آسمان کو تکتے ہیں اور آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ یقین کیجیے پاکستان کی اشرافیہ آج بھی اپنے لانز میں پانچ پانچ ٹن کے اے سی لگا کر بیٹھی ہوئی ہے، انہیں بس آپ پر حکمرانی کرنے سے سروکار ہے۔ ان کی طرف سے بس یہی بیان آنا ہے کہ احتجاج میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
Published: undefined
عوام اپنے پسینے میں اتنا ڈوب چکے ہیں کہ ان کا سانس لینا محال ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ قول مشہور ہے کہ مرد روتا نہیں ہے لیکن اس ملک کی فوج، سیاستدانوں، جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور اشرافیہ نے مل کر اتنا ظلم کیا ہے کہ اب یہ مرد رو پڑا ہے۔
Published: undefined
اس مرد کو حوصلہ دیجیے، اس کا درد بھی سمجھیے، اس کو گلے سے لگائے، ایک دوسرے کے آنسو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔ ایسے مشکل حالات میں گھروں کی کفالت کرنے والے مردوں اور خواتین کی صورت حال کو سمجھیں۔ آپ کے اردگرد ایسی لاکھوں آنکھیں ہوں گی، جو رونا چاہتی ہیں لیکن بزدل نہ بنو اور مرد روتا نہیں ہے، جیسے فقرے ان کے سامنے اژدھے بن کر کھڑے ہیں۔
Published: undefined
ایسے طعنے سننے والے مردوں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو حوصلہ درکار ہے۔ گھر کی خواتین، رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے ایک تھپکی اور''بے فکر ہو جاؤ، سب ٹھیک ہو جائے گا، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ایسا کوئی ایک چھوٹا سا ایک فقرہ درکار ہے۔ اب کی بار مرد رو پڑا ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined