سماج

تعلیمی ادارے یا کاروباری مراکز

پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس وقت پاکستان کی ضرورت بن چکے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار امید افزا نہیں۔ تاہم چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاروبار بن چکے ہیں۔

تعلیمی ادارے یا کاروباری مراکز
تعلیمی ادارے یا کاروباری مراکز 

ہمدوش، آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ بظاہر تیرہ سال کا یہ بچہ، انٹرنیشنل ریلیشنز، اے آئی، جغرافیہ اور علم فلکیات پر بہت عبور رکھتا ہے ۔ ہمدوش اس وقت ایک بہت بڑے نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے۔ ایک روز اس کی انگریزی کی استاد انگلش وکیبلری لکھواتے ہوئے، انگلش کے لفظ "cusine" کو qusine" "لکھنے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ بچے نے ان کی تصحیح کی کوشش کی، جس پر وہ خاصی برہم ہوئیں۔

Published: undefined

اب سوال یہ اٹھا کہ ماہانہ بیس سے تیس ہزار فیس دے کر بھی کیا ہم اپنے بچے کے لیے کوئی ایسا تعلیمی نظام نہیں حاصل کر سکتے، جو بچے کو اس کی ذہنی قابلیت کے مطابق پڑھائے؟ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریباﹰ ساڑھے چھ ملین بچے پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد 12 ملین کے قریب ہے۔

Published: undefined

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق ایک مڈل کلاس آدمی اوسطاﹰ اپنی تنخواہ کا 60 فیصد بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ پھر بھی ہم معیار تعلیم اور رٹا لگانے والے بچے ہی کیوں پیدا کر رہے ہیں؟

Published: undefined

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلی محلے کے ان اسکولوں نے اتنی ترقی کی کہ اس وقت بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کالجز اور یونیورسٹیوں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ انٹرنیشنل معیار تعلیم کا چورن بیچتے یہ پرائیویٹ اسکول آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی بچوں کے کاندھوں پر سے بیس کلوکتابوں کا بوجھ کم نہیں کر پائے۔ اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔ بھاری بھرکم ماہانہ فیس کے بعد، یونیفارم بھی انہیں سے ان کی طے کردہ قیمت پرخریدا جائے، اسٹیشنری اور مزید متفرق اخراجات الگ، مگر جب بات اساتذہ کی اہلیت اور تعلیمی نظام کی ہو تو یہ تمام ادارے والدین کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر خود کو معصوم ثابت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

Published: undefined

ابھی تک صرف خیبرپختونخوا حکومت نے ہی تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا ہےکہ وہ بچوں کے کاندھوں پر بھاری بستوں کا بوجھ نہ ڈالیں، باقی صوبے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پروان چڑھتے ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کا حکومتی سطح پر کیا نظام ہے؟ سوائے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کہ جس میں نجی اداروں کوفیسوں میں بے تحاشہ اضافے سے روکا گیا۔

Published: undefined

حکومت پنجاب کی جانب سے اس وقت صوبے کے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں کی رجسٹریشن کمرشل بلڈنگ کے طور پر کروائیں، جو بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس طرح ان تعلیمی اداروں کا منافع کم ہو جائے گا لیکن دوسری جانب بنا سوچے سمجھے یہ ادارے بچوں کی فیسیں بڑھا دیں گے جس کا بوجھ پھر والدین پر پڑے گا۔

Published: undefined

پاکستان اس وقت نظام تعلیم کے حوالے سے بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، یہاں تک کہ نائجیریا جیسے ملک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کسی بھی حکومت کی کبھی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اقوام متحدہ اور ایسی بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کام بھی کر رہی ہیں اور سرمایہ کاری بھی۔ مگر کسی بہتر نتیجہ کی توقع تب تک ناممکن ہے جب تک حکومت خود اسے اپنی ترجیحات میں شامل نہ کرے۔

Published: undefined

پاکستان کی بتدریج گرتی ہوئی معاشی حالت عوام پر ضروریات زندگی کا بوجھ مسلسل بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں بنیادی تعلیم، جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 21 کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے، عوام کے لیے بنیادی ضرورت کی بجائے، بوجھ بنتی جا رہی ہے، جس کی بہت بڑی وجہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا منافع بخش کاروبار ہے۔

Published: undefined

اب بھی اگر حکومت نے ان اداروں کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام وضع نہ کیا، سرکاری اداروں کا معیار بہتر کرنے کی جانب توجہ نہ دی تو پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے شہزاد رائے، جیسی انسان دوست شخصیات بھی ہمت ہار جائیں گی۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined