سماج

العارض، آپ کا نوکر

چلو کسی جمہوری حکومت کے اقدامات سمجھ آتے ہیں لیکن ایک نگران حکومت کس کھاتے میں یہ سب معاملات سرکاری ملازمین پر مسلط کر رہی ہے۔ ڈاکٹر شمائلہ حسین کا نیا بلاگ پڑھیے۔

العارض، آپ کا نوکر
العارض، آپ کا نوکر 

بچپن سے اب تک ہم نے دیکھا کہ مڈل کلاس لوگوں میں سرکاری ملازمت کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بھلے وہ کلاس فور کی نوکری ہو یا کلرکی سے پٹواری تک، لوگ رشوتیں دے کر بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ سرکاری نوکر بن جائیں تاکہ باقی کی زندگی آرام سے گزر سکے۔

Published: undefined

اس کے بعد اگر کسی ملازمت کا چلن سب سے زیادہ دیکھنے میں آتا ہے تو وہ ہے بطور ٹیچر بھرتی ہونا ہے۔ اس میں پرائمری سطح سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک آپ کو ہزاروں اساتذہ ملتے ہیں، جو سفید پوشی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنی ملازمت کی مدت پوری کرتے ہیں، ریٹائرڈ ہوتے ہیں اور بڑھاپا بڑی خود داری کے ساتھ اپنی پینشن کے سہارے گزار دیتے ہیں۔

Published: undefined

خود راقم بھی ایک سرکاری نوکری میں ہے اور اسی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اسے بھی چودہ پندرہ سال بیت گئے ہیں ۔ اب جا کے سمجھ آئی ہے کہ اگر پاکستان جیسے ملک میں رہنا ہے تو اپنی اگلی نسلوں کو یہ وصیت ضرور کریں کہ سرکاری استاد بھرتی ہونے کے بجائے سی ایس پی آفیسر بننے یا پھر کسی ایسے محکمے کا چناؤ کرنا جس میں عزت ہو یا نہ ہو پیسہ اور اسٹیٹس ضرور ہو۔

Published: undefined

کیونکہ پیارے وطن میں ویسے تو کوئی بھی سرکاری محکمہ کام نہیں کرتا لیکن طعنہ جانے کیوں اساتذہ کے لیے بنا دیا گیا ہے کہ ' ہم کوئی کام نہیں کرتے اور ملک کی اکانومی پر بوجھ ہیں‘۔ جبکہ ہم سے کونسی ڈیوٹی ہے جو نہیں کروائی جاتی ، آپ اپنے ڈینگی مچھر ہم سے مرواتے ہیں ، پولیو مہم ہم چلاتے ہیں ، آپ کا الیکشن ہمارے سروں پر ہوتا ہے ، آپ کے جلسوں اور سرکاری ایونٹس کا ہال اور پیٹ بھرنے کے لیے ہمیں لائن حاضر کرلیا جاتا ہے ۔

Published: undefined

گرمیوں کی چھٹیوں میں بہانے بہانے سے ہمیں سارا سال حاضر رکھا جاتا ہے اور اس حاضری کو غیر حاضری شمار کر کے ہمارا سفری الاؤس کاٹ لیا جاتا ہے۔ ریٹائر منٹ پر جو رقم ہمیں آپ دیتے ہیں وہ ساری ملازمت کے دوران ہماری ہی تنخواہ سے کاٹ کر جمع کی جاتی ہے اور ہم اس امید پر عمر گزار دیتے ہیں کہ پنشن کی رقم سے گھر بنائیں گے، بچوں کی شادی کریں گے یا حج عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے ۔

Published: undefined

رشوت ہم نہیں لے سکتے ، ساتھ کوئی اور کام ہم کر نہیں سکتے ، پوری سروس کے دوران نہ تو کوئی گاڑی ، گھر ، نوکر چاکر ہمیں ملتے ہیں اور نہ ہی اداروں میں مکمل مراعات ۔ آئے روز مختلف حیلے بہانوں سے ہماری تنخواہوں پر کٹ لگتے ہیں، کبھی لیو انکیشمنٹ کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے تو کبھی سکولوں اور کالجوں کی نج کاری کی سکیم سجھائی دینے لگتی ہے ۔

Published: undefined

چلو کسی جمہوری حکومت کے اقدامات سمجھ آتے ہیں لیکن ایک نگران حکومت کس کھاتے میں یہ سب معاملات سرکاری ملازمین پر مسلط کر رہی ہے ۔ پھر اس پر ظلم یہ کہ جو لوگ ان نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی جارہی ہے اور انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

اور ان سب پر دکھ یہ ہوتا ہے کہ ہم سب سرکاری ملازمین کی آواز بن رہے ہیں یہاں تک کہ ان کی بھی جو ہمیں گرفتار کرنے آتے ہیں ۔ ان کے لیے بھی جو بڑے بڑے افسران کے حکم پر ایسے حکم نامے جاری کرتے ہیں ۔ ان اے سی ، ڈی سی اور کمشنرز کے لیے بھی جو احتجاجی ریلیوں پر پولیس کی ریڈ کرواتے ہیں ۔

Published: undefined

یقین جانیے کہ ہم پر ہوا ظلم تو پھر بھی قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن اگر یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ کر دیا گیا تو غریب کے بچوں کو تا حیات ناخواندہ رہ جانے سے بچایا نہ جا سکے گا۔ بہت سے نام اس وقت میرے ذہن میں آرہے ہیں کہ اگر وہ مفت تعلیم کی سہولت سے فیض یاب نہ ہو پاتے تو آج نہ تو کسی مقام پر ہوتے اور نہ ہی اپنی فیملیز کے مستقبل کو روشن بنا پاتے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سرکاری اداروں کو بہتر بنایا جاتا لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے ۔

Published: undefined

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پرائمری اسکولوں میں اکثر جگہ سٹاف کم ہے لیکن نہ تو وہاں کوئی کلرک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی صفائی والا عملہ ۔ بعض اوقات تو صرف ہیڈ ٹیچر موجود ہوتا ہے اور پانچویں تک کی جماعتیں وہ خود پڑھا رہا ہوتا ہے ۔ ساتھ اسکول کی صفائی ستھرائی اور داخلے کی مہم بھی اس اکیلے کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

Published: undefined

پانی ، بجلی اور عمارتی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے پھر بھی وہاں غریب کا بچہ کم از کم چار لفظ سیکھ ہی جاتا ہے ۔ اب اگر یہ سب پرائیویٹ کر دیا جائے تو امیر وں کے بچوں کے لیے پہلے سے موجود سکولوں میں مزید اداروں کا اضافہ ہو جائے گا اور بس۔ غریب کہا ں جائے گا؟ آپ اگر غریب کو ختم کرنے کے در پے ہیں تو یہ الگ کہانی ہے ورنہ غربت کے خاتمے کی کوئی شکل دکھائی نہیں دے رہی ۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined