اسّی کی دہائی ہمارے بچپن کا دور تھا، جب مشترکہ خاندانی نظام کارواج تھا اورایک کمانے والے پر پورا کنبہ انحصار کرتا تھا۔ انفرادی خاندان خال خال ہی نظر آتے تھے۔ بزرگوں کی بات حتمی سمجھی جاتی تھی اور کسی قسم کے اختلاف کو بد تہذیبی میں شمار کیا جاتا تھا۔
Published: undefined
گلی کے بچوں کا سائیکلنگ کرنا، آنکھ مچولی، پٹھو گرم، کھوکھو اور پکڑم پکڑ آئی کھیلنا پسندیدہ تفریحات ہوا کرتی تھیں۔ کسی گھر میں ٹیلی فون اور رنگین ٹی وی ہونا ان کے صاحب استطاعت ہونے کو ظاہر کرتا تھا۔ گھر کا کھانا مزے لے کر کھایا جاتا تھا اور اس میں پسند ناپسند کی گنجائش موجود نہ تھی۔ آؤٹنگ، ہوٹلنگ، سینما جانا عیاشی ہوا کرتی تھی اور ہینگ آؤٹ، کا لفظ ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ زندہ رہنے یا بقا کے مسائل اس وقت بھی تھے لیکن نوعیت ایسی خوفناک نہ تھی۔
Published: undefined
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی ان باتوں سے ہمارے بچے کوئی تعلق محسوس کر پاتے ہیں؟ غالباً نہیں۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ ملینیئم کے بعد پوری دنیا میں ہی بدل چکے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں 1997ء سے 2012ء کے عشرے میں پیدا ہونے والی نسل کو محققین نے جینریشن زی کا نام دیا۔ جبکہ ٹیکنالوجی چونکہ ذرا دیر سے آئی تو یہاں یہ نسل 2000ء کے بعد کی ہے۔
Published: undefined
جینریشن زی کئی حوالوں سے اداس نسل کہی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل دور کا انقلاب، مالیاتی عدم استحکام، اقتصادی عدم توازن، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بگڑتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیاں اور کوڈ 19 کی مہلک وبا جیسےحالات میں پروان چڑھتی ہوئی اس نسل کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی رجحانات اپنی پچھلی والی نسل سے یکسر مختلف ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ نسل ایک ایسے دور میں اپنی عمر کی منزلیں طے کر رہی ہے جب ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ اس کے باوجود جینریشن زی کی خصوصیات مختلف ممالک کے مختلف حالات کے مطابق ہیں اور اسے جرنلائز کرنا درست نہیں۔
Published: undefined
ملینیئلز یا جینریشن وائی جو جینریشن زی سے پہلے کی نسل کہلائی جاتی ہے اور جنہوں نے ڈیجیٹل انقلاب اپنے سامنے رونما ہوتے دیکھا لیکن انہیں وہ دور بھی یاد ہے جب وہ ان ڈیجیٹل آلات کے بنا بھی اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزار رہے تھے۔ جبکہ جینریشن زی کے لیے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، وائی فائی، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کے بغیر دنیا کا تصور ناممکن ہے۔
Published: undefined
جہاں اس نسل میں صبر، توجہ میں کمی، مختصر المدت دلچسپیاں، غصہ اور اینٹی سوشل رویے معمول کی باتیں۔ وہیں جینریشن زی کو زیادہ لبرل، سیکیولر اور روشن خیال بھی تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں نا صرف اپنی شناخت کا ادراک ہے بلکہ جن طبقات کے ساتھ پچھلی نسلیں ہتک آمیز رویوں کا مظاہرہ کرتی تھیں ان کے حق لیے اس نسل نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ مثلاً امریکہ میں بلیک لائف میٹرز اور ٹرانس جینڈر کے حقوق قابل ذکر ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے مسائل اورایل جی بی ٹی کے حقوق اس نسل کو ازبر ہیں اور یہ ان معاملات پر سیر حاصل گفتگو کرنے میں مہارت بھیرکھتے ہیں۔ آن لائن معلومات ہونے کے باعث انہیں بہت سے پہلوؤں کا بخوبی علم ہے۔
Published: undefined
ترقی یافتہ ممالک میں زی نسل کے افراد اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت کے قطعی حامی نہیں اور نہ ہی دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑانا پسند کرتے ہیں۔ اس کی غالباٍ وجہ اس نسل کا سیلف فوکسڈ ہونا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ انہیں اپنے گھر والوں، دوستوں یا آس پاس بسنے والوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اس پہلو پر ان کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ اپنی بقا، ترقی اور خوشی کی ذمہ دار چونکہ وہ خود ہیں تو سب سے پہلےانہیں خود پر توجہ دینی ضروری ہے۔
Published: undefined
دنیا کی اکثریت جینریشن زی شادی کے انسٹیٹوٹ سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ شادی کرنا اس نسل کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کے برعکس انہیں اپنی شخصی آزادی اور کیریئر بنانے میں دلچسپی کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور سے کوڈ 19 کے بعد جینریشن زی نے ورک فرام ہوم، آن لائن شاپنگ اور فوڈ ڈیلیوری کو باآسانی قبول کیا ہے اور سب سے بڑے کنزیومرز بھی اسی نسل کے افراد ہیں۔
Published: undefined
حالات اور بقا کے مسائل کے پیش نظر جینریشن زی خود کو ایک بند گلی میں بھی محسوس کرتی ہے، جس کی وجہ سے یہ نسل اسٹریس، ڈپریشن اور متعدد نفسیاتی الجھنوں اور عارضوں کا شکار بھی سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں جینریشن زی کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر پاکستان کی جینریشن زی کا موازنہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کیا جائے تو ملک کے اندر ہی اسی نسل سے تعلق رکھنے والے مختلف رجحانات ونظریات رکھنے والے طبقات ملیں گے۔
Published: undefined
پاکستان کی خستہ حال معیشت اور بے روزگاری کے پیش نظر جینریشن زی بہت مایوسی اور کنفیوژن کا شکار ہےکیونکہ جب ریاست کی جانب سے تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو یہ نسل خود کو غیر محفوظ ہی تصور کرے گی۔ غربت کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں ریاستی سطح پر اس نسل کو کارآمد بنانے کے بجائے جاہلیت کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ پاکستانی زی نسل کی اکثریت دوسروں کے مذہبی عقائد، روایات اور خاندانی معاملات میں نہ صرف ٹانگ اڑانا اپنا فرض سمجھتی ہے بلکہ کسی بھی قسم کے تشدد سے بھی گریز نہیں کرتی۔ جڑانوالہ واقعہ سے لے کر اسلام آباد کی سبزی منڈی میں محبت کی شادی کرنے پر بھائی کے ہاتھوں بہن کے قتل تک روز ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر اور گلوبل وارمنگ جیسے حساس موضوعات پر ہماری نوجوان نسل کی اکثریت کے خیالات بہت فرسودہ اور قدامت پسند ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس نسل کی دسترس میں اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی تو ہے لیکن ذہنی بلوغت اور شعور میں نہ صرف یہ نسل بلکہ اکثریتی پچھلی نسلیں بھی چودھویں صدی میں ہی بھٹک رہی ہیں۔
Published: undefined
جبکہ دوسری جانب پاکستان میں جینریشن زی کا دوسرا اعلی طبقہ چند فیصد پر مشتمل ہے، جو نسبتاً تعلیم یافتہ، روشن خیال اور برسر روزگار ہے اور مالی طور پر مستحکم بھی۔ لیکن ان کے مسائل تقریباً وہی ہیں جیسے کہ دیگرممالک کی زی نسل کے ہیں۔ یعنی والدین اور بچوں کے درمیان دوری اور خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ میری دو چھوٹی بیٹیاں بھی اسی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی ساری الجھنوں، تحفظات اور سوالات نے مجھے اس نسل کو سمجھنے میں کافی مدد فراہم کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جینریشن زی اور پچھلی نسلوں کے درمیان اس گیپ یا خلا کو دور نہیں تو کم کس طرح کیا جائے؟
Published: undefined
اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر، مذہبی منافرت اور شدت پسندی پھیلانے سے اجتناب اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ علم شہریت (سوک سینس ) کی تعلیم کولازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب گھر کے ماحول کو بچوں کے لیے موزوں بنانا ضروری ہے۔ غالباً ہمیں اپنے دور کی اچھائیوں اور اعلی روایات کا رونا رونے کے بجائے نئی نسل کی بات سننے پر توجہ دینا ہوگا ورنہ یہ نسل والدین سے مزید دور ہوتی چلی جائے گی۔
Published: undefined
ایک چھوٹی سی مثال: ہماری نسل کے بہت سے لوگ اکثر نئی موسیقی سننے سے گریز کرتے ہیں اور ماضی میں ہی اٹکے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کی پسند کی موسیقی، فلمیں اور ڈرامے ان کے ساتھ مل کر دیکھیں تو یقین جانیے ہم خود کو توانا اور زندگی سے بھرپور بھی محسوس کریں گے اور بچوں کے ساتھ ایک ربط بھی قائم ہوگا۔ جب ہم اپنے بچوں کی پسند کو ترجیح دیں گے تو یقیناً جلد یا بدیر وہ بھی ہماری پسند کو ضرور سراہیں گے۔
Published: undefined
دوسری اہم بات ہمیں یہ سمجھنی چاہیے کہ جب تک ہم ان کے روزمرہ کے مسائل توجہ اور دلچسپی سے نہیں سنیں گے تب تک ہمیں نہ ان کی نفسیاتی الجھنوں کا اندازہ ہوگا نہ ہم انہیں مناسب مشورہ دے پائیں گے۔ گفتگو کےدروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہییں ۔ جینریشن چاہے ایکس، وائی، زی یا الفا ہو درحقیقت ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو وقت کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں اگر دو تین نسلوں کے درمیان خلا کو کم کرنا ہے تو پچھلی نسلوں کو نئی نسل سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں پہل کرنی ہو گی۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula