نا کوئی یہ پہلا موقع ہے نہ ہی آخری کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پچھلے چالیس برس سے سارا گیم اندازوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً دراصل کتنے پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں؟ پینتالیس لاکھ، چالیس لاکھ یا تیس لاکھ؟ ان میں رجسٹرڈ کتنے ہیں؟ چودہ لاکھ، دس لاکھ، آٹھ لاکھ؟ بغیر دستاویزات کے کتنے ہیں سترہ لاکھ یا پونے آٹھ لاکھ؟ واپس کتنے گئے اور دوبارہ آ گئے؟
Published: undefined
اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کتنے نئے پناہ گزین آئے؟ پونے دو لاکھ، ساڑھے تین لاکھ یا چھ لاکھ؟ کتنے روزانہ سرحد پار سے آتے ہیں اور کہاں کہاں جاتے ہیں؟ ان میں سے کتنے اقوامِ متحدہ کے وظیفے پر گزارہ کر رہے ہیں؟ کتنے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور کتنے پاکستانیوں کے کاروباری شراکت دار ہیں؟
Published: undefined
مذکورہ بالا سوالوں میں سے کسی ایک کا حتمی جواب نہ تو حکومتِ پاکستان کے کسی ایک ادارے کے پاس ہے اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے پاس۔ جب یہ بنیادی معلومات ہی آپس میں نہیں ملتیں تو پھر کس بنیاد پر یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اکتیس اکتوبر تک غیر قانونی تارکینِ وطن نے پاکستان نہیں چھوڑا تو انہیں حراست میں لے کے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
Published: undefined
پاکستان میں محض افغان ہی نہیں بلکہ بنگالی، برمی، ایرانی، وسطی ایشیائی اور مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کے بھی باشندے موجود ہیں۔ فرض کریں کہ حکومتِ پاکستان واقعی ان سب کو نکالنے میں سنجیدہ ہے تو عملاً یہ کیسے ہو پائے گا؟
Published: undefined
ایسے ہر کریک ڈاؤن میں ہراول ادارہ مقامی پولیس ہوتی ہے۔کیا کسی جامع کریک ڈاؤن کے لیے پولیس کے پاس ضروری تکنیکی تربیت و آگہی ہے؟ تاکہ غیر قانونی گیہوں کے ساتھ ساتھ قانونی گھن نہ پس جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر بار ایسی مہم میں پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اندھا دھند گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر قانونی و جائز غیر ملکیوں کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کر کے پیسے لے کے چھوڑا جاتا ہے۔
Published: undefined
فرض کریں کریک ڈاون کے نتیجے میں افغان پناہ گزینوں سمیت ہر قومیت کے مجموعی طور پر پانچ لاکھ افراد حراست میں لے لیے جاتے ہیں۔ مگر افغانستان، بنگلہ دیش، ایران یا کوئی بھی عرب ملک ان پناہ گزینوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ تب حکومتِ پاکستان ان لاکھوں غیر قانونی پناہ گزینوں کو کہاں اور کتنی دیر رکھے گی؟ اس مہم کو بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے ایک عالمگیر انسانی مسئلہ بننے سے کیسے روکے گی؟
Published: undefined
فرض کریں کہ یہ سب ممالک اپنے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی ٹرانسپورٹیشن کیسے ہو گی؟ اس ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کون دے گا؟ میزبان ملک؟ اپنے لوگ وصول کرنے والا ملک؟ اقوامِ متحدہ یا کوئی اور ادارہ؟
Published: undefined
اگر یہ اتنا ہی آسان ہو تا تو مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا نے میانمار کے لگ بھگ پانچ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے کی پیش کش کی تھی۔ شرط یہ تھی کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم یا پھر متمول ممالک انہیں طیاروں یا بحری جہازوں کی مدد سے گیمبیا پہنچا دیں۔ مگر یہ اتنا بڑا اور مہنگا کام تھا کہ امیر خلیجی ریاستوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ ایک عشرے سے روہنگیا پناہ گزین کس طرح اور کہاں کہاں خانماں برباد ہیں۔
Published: undefined
ایران میں اس وقت لگ بھگ چونتیس لاکھ افغان پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے سات لاکھ اسی ہزار کے پاس ضروری دستاویزات ہیں جبکہ باقی یا تو عارضی شناختی کارڈ پر ہیں یا پھر دستاویزات کے بغیر۔ ان میں سے لگ بھگ چھ لاکھ پناہ گزین طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد آئے۔
Published: undefined
اگرچہ چورانوے فیصد مہاجرین شہری علاقوں میں اور چار فیصد ایران افغان سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کیمپوں میں رہتے ہیں۔ مگر ان کی نقل و حرکت محدود ہے۔ انہیں روزگار کے لیے عارضی ورک پرمٹ بنوانا پڑتا ہے۔ ایرانی انٹیلی جینس ہمہ وقت نظر بھی رکھتی ہے اور حساس اداروں کے پاس ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رہتا ہے۔ انہیں محدود پیمانے پر صحت و تعلیم کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ لیکن اگر کوئی پناہ گزین بغیر کسی دستاویز کے پکڑا جائے یا مقامی قانون کو توڑنے کا مرتکب ہو تو اسے فوری طور پر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ برس کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ پناہ گزینوں کو واپس سرحد پار بھیجا گیا۔
Published: undefined
جب افعانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر پاکستان میں داخل ہوئی تو اس وقت کی عمران حکومت نے اعلان کیا کہ نئے آنے والوں کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کلومیٹر کی پٹی میں قائم کردہ کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ ایسے کتنے کیمپ بنائے گئے؟ خدا بہتر جانتا ہے۔ نئے آنے والے پناہ گزین بھی پہلے سے موجود پناہ گزینوں کی بھیڑ میں جذب ہو گئے۔
Published: undefined
اس وقت کئی لاکھ پناہ گزین وہ ہیں جن کی تین نسلوں نے افغانستان نہیں دیکھا۔جو بچے اور ان کے بچے اور ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں ۔انہیں کس کیٹیگری میں رکھا جائے گا اور افغانستان کی کوئی بھی حکومت آخر انہیں کیوں قبول کرے گی ؟
Published: undefined
اکثر متمول پناہ گزین پاکستان کے راستے خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ جو متوسط پناہ گزین ہیں وہ پاکستانی شناحتی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام دو ہزار سولہ تک اس منظم ریکٹ سے انکار کرتے رہے مگر جب مئی دو ہزار سولہ میں طالبان کے امیر المومنین ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے اور ان کی گاڑی سے پاکستانی شہریت کی دستاویزات برآمد ہوئے۔ اس کے بعد پاکستانی اداروں نے جھینپ مٹانے کے لیے ایک اندرونی ادارہ جاتی کریک ڈاؤن شروع کیا اور وہ بھی کچھ ہفتے میں ہانپ گیا۔
Published: undefined
سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد پاکستانی ریاست کو پھر غصہ آیا ہے اور ہر بار کی طرح یہ غصہ پناہ گزینوں پر ہی نکل رہا ہے۔ مگر یہ غصہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان کی طرح جلد تھم جائے گا۔ کیونکہ بغیر تیاری کے غصے کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ آپ میں سے کون کون اس محاورے سے ناواقف ہے کہ ”کمہار پے بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دئیے”
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز