چند روز قبل ایک دیرینہ سہیلی کی کال آئی، لہجہ ذرا معمول سے ہٹ کے بجھا بجھا سا تھا۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد کہنے لگیں کہ کل شام اس کی منگنی ہے اور میری شرکت لازمی ہے۔ ایسے یوں اچانک، اس کے منہ سے منگنی کا سن کے میرے کان کھڑے ہو گئے، کیوں کہ ابھی گزشتہ دنوں جب ہماری بات ہوئی تو ہم یہی دیسی رشتہ کلچر ڈسکس کر رہے تھے۔
Published: undefined
میری یہ دوست، ایک زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے ہاں، خاندان سے باہر شادی کرنا گویا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ خواہ لڑکی، لڑکے کی عمر نکل جائے یا جوڑوں کی عمروں میں خاصا تضاد ہو۔
Published: undefined
خاندان کے بڑوں کے درمیان رشتہ طے کرنے کے بعد لڑکی/ لڑکے کو اطلاع کے نام پر حکم نامہ سنایا جاتا ہے، جسے ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اکثریت تو بغیر چوں چراں کیے مان بھی لیتی ہے، کیوں کہ انکار کی صورت میں کافی بھاری نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Published: undefined
اس نے ایک سرد آہ بھری، پھر مختصراً بتانے لگی کہ ان دونوں بہنوں کا رشتہ لینے کے لیے خاندان بھر میں کچھ عرصے سے ایک تناؤ کا ماحول تھا۔ 'کل اچانک امی کی طبیعت بہت بگڑ گئی اور ساری رات ہمیں ہسپتال گزارنا پڑی، آج طبیعت کچھ بحال ہوئی تو ہم گھر آ گئے'۔ شام میں ماموں کی فیملی تیمار داری کرنے آئی، تو ان کے جانے کے بعد حکم سنا دیا گیا کہ کل تم دونوں بہنوں کی ماموں کے دونوں بیٹوں کے ساتھ منگنی ہے اور دو ماہ بعد شادی۔۔۔
Published: undefined
یوں اب ان کی تیسری نسل، لگاتار فرسٹ کزن میرج کرنے جا رہی ہے۔ کزن میرج کے باعث ان کے خاندان میں پہلے ہی فشار خون، جوڑوں کے درد، ذیابیطس جیسی بیماریاں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں کزن میریجز کی تعداد ستر فیصد کے قریب ہے، جس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا گراف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی اس موضوع پر آگاہی فراہم کرنا بھی چاہے تو اس پر لعنت و ملامت شروع کر دی جاتی ہے۔ حوالے کے طور پہ کہا جاتا ہے کہ میری بھی تو اپنے عم زاد سے شادی ہوئی ہے اور ہمارے فلاں دوست، فلاں عزیز کی بھی کزن میرج ہے۔ انہیں تو کسی قسم کے کوئی مسائل درپیش نہیں ہوئے۔
Published: undefined
انٹرنیشنل ذیا بیطس فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، ہماری کل آبادی کا تیس فیصد اس وقت ذیابیطس کے مرض کا شکار ہے۔ حالیہ سروے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچوں میں منتقل ہونے والی ستر فیصد بیماریاں موروثی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں اس وقت جینیاتی بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد سولہ ملین ہے۔
Published: undefined
برطانیہ کی کل آبادی کا پانچ فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے اور وہاں بھی اکثریت میں کزن میرج کا رجحان ہے، جس کے باعث ان کے ہاں پائے جانے والے تیس فیصد جینیاتی کیسز کا تعلق مسلم آبادی سے ہے۔ یہ ڈیٹا جینیاتی بیماریوں کے سب سے بڑے آرکائیو omim پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں اول تو فرسٹ اور سیکنڈ کزن میریجز ہوتی ہی نہیں۔ دوسرا ان پر پابندی کے لیے بھی وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی جاتی ہے۔
Published: undefined
کزن میرج کے نتیجے میں بچے کی پیدائش کے بعد فوری اموات، بے اولادی، پری ٹرم ڈیلیوری، تھیلیسیمیا، مرگی، گونگا پن، بہرہ پن، بائی پولر ڈس آڈر سمیت کئی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مگر پاکستانی سماج کا المیہ ہے کہ یہاں اس سب کے باوجود کزن میریجز کو روکنا نا ممکن سا لگتا ہے۔
Published: undefined
اس رویے پر بات کرنا، ان بیماریوں سے بچنے کے تمام ممکنہ حل ڈھونڈنا اب از حد ضروری ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ اب یوں تو رکنے والا نہیں، لہذا کزن میرج سے پہلے چند ٹیسٹوں کا کروانا لازم و ملزوم قرار دیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ تھیلیسیمیا، بانجھ پن، ذیا بیطس اور چند بنیادی جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی تشخیص، تا کہ بعد میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined