سماج

چرچ، ریاست اور سوسائٹی

عہد وسطیٰ میں یورپ کا معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ پہلا چرچ کے عہدیدار (Clergy)، دوسرا اُمراء، تیسرے میں بقایا عوام۔ ان تینوں میں چرچ یا عہدیدار سب سے زیادہ طاقتور تھے۔

چرچ، ریاست اور سوسائٹی
چرچ، ریاست اور سوسائٹی 

عہد وسطیٰ میں چرچ سب سے زیادہ زرعی زمین کا مالک تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے اُمراء ثواب کی خاطر، چرچ کو بطورعطیہ اپنی زمینیں دے دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے چرچ کے پاس آمدنی کے ذرائع ہو گئے تھے۔ اپنی آمدنی کی بنیاد پر چرچ نے تعلیمی ادارے کھولے، بیماروں کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال قائم کیے، غریبوں کی مدد کے لیے خیرات کا سلسلہ شروع کیا۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے چرچ کا عوام سے گہرا رابط تھا۔ اس کے علاوہ چرچ بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے قصبوں میں موجود تھے، جہاں لوگ عبادت کی غرض سے جمع ہوتے تھے۔

Published: undefined

چرچ کے بڑے عہدیداروں میں اُمراء کے لڑکے بھی آجاتے تھے۔ کیونکہ جائیداد کا وارث بڑا لڑکا ہوتا تھا، اس لیے دوسرے لڑکے یا تو چرچ کے عہدیدار ہو جاتے تھے یا فوج میں چلے جاتے تھے۔ کیونکہ چرچ کی وفاداری پوپ سے ہوتی تھی۔ اس لیے مقامی حکمرانوں کی وہ تابعداری نہیں کرتے تھے اور اپنی جگہ آزاد تھے۔

Published: undefined

خاص طور سے چرچ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مذہبی تعلیمات اور عقیدے کا تحفظ کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دے۔ انکلوزیشن کا محکمہ منحرفین کو زندہ جلانے کی سزا دیتا تھا۔ سزا کو نافذ کرنا اور زندہ جلانے کا کام سیکولر اتھارٹی کو دے دیا جاتا تھا۔

Published: undefined

ہم یہاں خاص طور سے انقلاب سے پہلے فرانس میں چرچ کے کردار پر بحث کریں گے۔ فرانس میں کنگ ہنری IV نے 1598ء میں Edict of Nantes کا نفاذ کیا، جس میں پروٹسٹنٹ کو حقوق دیے گئے تھے۔لیکن لوئی (XIV) نے اس کا خاتمہ کر کے پروٹسٹنٹ فرقے کے تحفظ کو ختم کر دیا، جس کی وجہ سے سخت فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور پروٹسٹنٹ فرقے کی اکثریت نے فرانس چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لی۔

Published: undefined

کیونکہ چرچ کا اثرورسوخ بہت زیادہ تھا۔ اس لیے ریاست بھی اس کے سامنے بے بس تھی۔ خاص طور سے یہ دانشوروں کی تحریروں پر سخت پابندی لگاتے تھے۔ سینسرشپ کے قانون کی وجہ سے وہ اپنی کتابیں اس وقت تک شائع نہیں کر وا سکتے تھے جب تک کہ چرچ اس کی اجازت نہ دے۔ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں بھی چرچ کا عمل دخل تھا۔

Published: undefined

کسی شخص کے مرنے سے پہلے اس سے اعتراف کرایا جاتا تھا کہ وہ مسیحیت پر ایمان رکھتا ہے کہ نہیں۔ اعتراف کرنے والوں کو چرچ کے قبرستانوں میں دفن کرنے کی اجازت تھی ورنہ ان کی لاشوں کو ایک اجتماعی قبر میں پھینک دیا جاتا تھا۔

Published: undefined

1778ء میں جب فرانسیسی فلسفی والٹیئر کی وفات ہوئی تو اس کے اعترافات سے چرچ کے عہدیدار مطمئن نہیں تھے۔ اس لیے اسے چرچ کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ تھی، لہٰذا اس کے مداحوں نے رات کی خاموشی میں اس کی لاش کو ایک دور دراز کے قصبے کے قبرستان میں دفن کیا۔ فرانسیسی انقلاب کے دوران اس کے تابوت کو وہاں سے لا کر Pantheon میں دفن کیا گیا، جو فرانسیسی ہیروز کی یادگار ہے۔

Published: undefined

روشن خیالی کے مفکرین اور دانشوروں نے چرچ کی مخالفت میں آواز اُٹھائی کیونکہ اس کے تسلط کی وجہ سے نہ تو مذہبی اقلیتیں محفوظ تھیں اور نہ تحریر و تقریر کی آزادی۔ دانشوروں کی اس مہم میں ریاست کے عہدیدار اور اُمراء بھی ان کے ساتھ تھے، کیونکہ چرچ نے ریاست کو بھی بے بس کر دیا تھا اور اصل اقتدار چرچ کے پاس تھا، جو جبر کے ساتھ مذہبی تعلیمات کا نفاذ کر کے سوسائٹی کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔

Published: undefined

انہیں وجوہات کی بنا پر جب 1789ء کا فرانسیسی انقلاب آیا تو اس نے اصلاحات کے ذریعے سب سے پہلے چرچ کے تسلط کو توڑا۔ ان سے تعلیم کی ذمہ داری لے کر ریاست کو دی۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں نیلام کر دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کر کے اسے قومی ریاست بنایا۔

Published: undefined

روز مرہ کی زندگی نے چرچ کی جو ذمہ داری تھی وہ ختم ہوئی جب ان کی مالی امداد بند ہوئی تو وہ اس قابل نہیں رہا کہ اپنے فلاحی کاموں کو جاری رکھ سکے۔ جب مذہب ریاست سے جدا ہوا تو سینسر شپ کی سختیاں بھی ختم ہوئی۔ دانشوروں کو آزادی ملی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ اس میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا اور انہیں قوم کا حصہ بنا دیا گیا۔

Published: undefined

فرانس کا یہ ماڈل دوسرے یورپی ملکوں نے بھی اختیار کیا اور قومی ریاست کے ادارے نے سوسائٹی کے ذہن کو سیکولر بنایا، جب ذہن مذہب کی گرفت سے آزاد ہوا تو سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی علوم میں نئے خیالات و افکار پیدا ہونا شروع ہوئے، جنہوں نے یورپی تہذیب کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔

Published: undefined

اس پس منظر میں جب ہم پاکستان کی سوسائٹی کا مطالعہ کرتے ہیں تو مذہبی طبقے کی پابندیوں کی وجہ سے نئی فکر پیدا نہیں ہو پاتی کیونکہ جب اس کے خلاف یہ فتویٰ آجائے کہ یہ مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے تو فکر کی راہیں بند ہو جاتی ہیں اور جب پورا معاشرہ مذہب کے تسلط میں رہے تو اس میں نئی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔

Published: undefined

موجودہ دور میں علم و آگاہی کا زبردست پھیلاؤ ہے، اگر کوئی قوم اس دھارے میں شامل نہیں ہوتی ہے تو علیحدگی اور تنہائی کی صورت میں وہ گمنامی کا شکار ہو کر خود کو اندھیروں سے ڈھانپ لیتی ہے۔ قومیں تاریخ سے سیکھتی ہیں۔ امریکہ جب برطانیہ سے آزاد ہوا تو اس کا دستور بنانے والوں نے خاص طور سے تاریخ کا مطالعہ کیا۔ وہ رومی سلطنت کے قوانین اور سیاسی اداروں سے بے انتہا متاثر ہوئے خاص طور سے انہوں نے دستور میں ریاست اور چرچ کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ چرچ کے اثرورسوخ سے آزاد ہو کر ریاست اس پوزیشن میں تھی کہ وہ سیاسی مفادات کی روشنی میں قوانین بنائے۔

Published: undefined

امریکی ریاست نے چرچ کو سیاسی امور میں دخل اندازی کا موقع نہیں دیا۔ یہی وہ پالیسی تھی کہ جسے یورپی ملکوں نے اختیار کیا۔ ایشیا اور افریقہ کے آزاد ہونے والے ملکوں نے اپنی قوموں کو تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے ان کے مذہبی تعصبات سے فائدہ اُٹھایا اور مذہب کو سیاست کا حصہ بنا کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اس ملاپ نے قوموں کی ذہنی ترقی کو روک دیا اور معاشرے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined