اگر مذکورہ اقوال کو من و عن لے لیا جائے تو دونوں مؤقر اصحاب کی دماغی صحت پر شبہہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سیموئل جانسن یا برنارڈ شا کے علمی و ادبی قد کاٹھ کو دیکھا جائے تو پھر انہیں شک کا فائدہ دینا پڑے گا۔
Published: undefined
فی زمانہ حب الوطنی جیسے لطیف جذبے کو ذاتی، گروہی، نسلی و نظریاتی مفادات آگے بڑھانے کے لیے جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور حب الوطنی کے پردے میں ہر طرح کی جنونیت عام کر کے حریفوں کو جیسے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
سیاست کے ہنر کو جس طرح بھانت بھانت کی مافیائیں اپنا اثر و رسوخ اندھا دھند بڑھانے کے لیے پورے پورے سماجی ڈھانچوں کو بے سدھ کر کے یرغمال بنانے کی دوڑ میں مبتلا ہیں اور ملکی مفاد کے نام پر کلپٹو کریسی جس طرح متعدد ریاستوں میں طرح طرح سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ اس سب کے ہوتے سیموئیل جانسن یا برنارڈ شا کے مدۂورہ اقوال کو یک بیک مسترد کرنے سے شائد مسئلہ حل نہ ہو۔
Published: undefined
اگر میں دیگر ممالک کو چھوڑ کے صرف بھارت اور پاکستان کو ہی ہر دو اصحاب کے اقوال کے آئینے میں دیکھنے کی جرات کروں تو اس آئینے میں بہت سے معززین اور ان کے پروردگان بے لباس نظر آ رہے ہیں۔ ایک زمانے تک سیاسی و ذاتی دشمنی کے درمیان واضح حدِ فاصل کھچی ہوئی تھی۔ کٹر سیاسی دشمن بھی ایک متفقہ غیر رسمی تہذیبی ضابطہِ اخلاق کے دائرے میں ہی رہتے تھے۔
Published: undefined
اب یہ فرق تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔ پارلیمانی زبان اور تھڑے کی بازاری گفتگو میں تمیز نہ صرف مشکل تر ہو گئی ہے بلکہ کسی بھی نام نہاد رہنما یا مدبر کی جانب سے اس کی حوصلہ شکنی یا ناپسندیدگی کا اظہار عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ والدین اب اس مشکل میں مبتلا ہیں کہ کچی عمر کے بچوں کو کسی ٹی وی چینل پر کوئی سیاسی مباحثہ بلا روک ٹوک دیکھنے کی اجازت دیں یا ریموٹ کنٹرول اپنے قبضے میں رکھیں؟
Published: undefined
وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اپنے پسندیدہ رہنما کے کسی جلسے یا جلوس میں کنبے سمیت شرکت کریں یا نہ کریں۔بس ایک کسر باقی ہے کہ ہر ٹاک شو کے آغاز سے پہلے یہ ہدایت بھی اسکرین پر آنے لگے کہ یہ پروگرام صرف اٹھارہ برس سے اوپر کے ناظرین کے لیے موزوں ہے۔ تعلیمی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ گاندھی جی اور محمد علی جناح کٹر سیاسی حریف تھے۔ ایک دوسرے پر فقرے بھی کستے تھے، طنز بھی کرتے تھے مگر آمنا سامنا ہونے پر ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرنا بھی نہیں بھولتے تھے۔
Published: undefined
اچھا ہی ہوا کہ وہ نسل آج کا سیاسی ماحول دیکھنے سے بہت پہلے گزر گئی اور ان کی یاد اور آبرو صرف کرنسی نوٹ پر تصویر کی شکل میں محفوظ رہ گئی۔ ورنہ یہ سوچ سوچ کے ہی زندہ درگور ہو جاتے کہ کیا یہ ہیں وہ آئندہ نسلیں جن کی آزادی و خوشحالی کے خواب کو عملی شکل دینے کی جدوجہد میں ہم نے عمریں تیاگ دیں۔
Published: undefined
آج صرف گالم گلوچ، ٹرولنگ اور مجمع کے من و رنجن کے لیے توہین آمیز فقرے اور القابات کافی نہیں رہے۔کسی کو بھی غدار یا ملک دشمن قرار دینے میں بھی کوئی خبریت نہیں رہی۔ایک دوسرے کے خاندان کی خواتین کے بارے میں زو معنی گفتگو سے بھی تسکین نہیں ہو پا رہی۔ اب سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر حریف کو ہر اعتبار سے تباہ کرنے کی نئیت سے کوئی حربہ ناجائز یا گھناؤنا نہیں رہا۔
Published: undefined
اب سیاسی دشمنی دالان سے ہوتی ہوئی مائیک اور کیمرے سمیت خواب گاہ میں گھس گئی ہے ۔ایک دوسرے کی آڈیوز اور وڈیوز منظرِ عام پر لانا نیا نارمل ہے ۔ پاکستان کی حد تک یہ کہانی انیس سو ستر میں ہی شروع ہو گئی تھی جب زوالفقار علی بھٹو کو ملحد اور کیمونسٹ ایجنٹ کہنے سے کام نہیں چلا تو مذہبی لابی کو حرکت میں لایا گیا اور شورش کاشمیری کے رسالے شہاب نے نہ صرف ایک سو بیس علما کا فتوی شائع کیا کہ جس نے بھٹو کو ووٹ ڈالا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ بلکہ یہ کہانی بھی گھڑی گئی کہ بھٹو کی ولدیت مشکوک ہے اور ختنہ بھی نہیں ہوئی۔ مگر ایسی کردار کشی کا الٹا اثر ہوا اور مغربی پاکستان میں بھٹو سب سے بڑی سیاسی قوت بن کے ابھرا۔
Published: undefined
لیکن پروپیگنڈہ اتنا راسخ تھا کہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جھوٹ کو اسٹیبلشمنٹ نے سچ سمجھ لیا۔جیل میں بھٹو صاحب کی نگرانی پر مامور کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری تین سو تئیس دن‘‘ میں لکھا کہ پھانسی کے بعد ریکارڈ کی خاطر لاش کی جو تصاویر کھینچی گئیں ان میں ایک ایسی تصویر بھی تھی جس سے ختنہ کی تصدیق ہو سکے ۔ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ضیا الحق کی وارث اسٹیبلشمنٹ نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔
Published: undefined
مجھے یاد ہے کہ جس روز لاہور میں آئی جے آئی کا آخری انتخابی جلسہ ہونا تھا۔ شہر کے کچھ مقامات پر کرائے کے ایک طیارے سے ہینڈ بل سائز کے پوسٹر گرائے گئے۔اس پوسٹر میں بیگم نصرت بھٹو کی ایک پرانی تصویر تھی جس میں وہ وائٹ ہاؤس میں دیے گئے عشائیے کے موقع پر صدر فورڈ کی ہم رقص تھیں۔ مگر پوسٹر میں وہ تصویر نہیں چھاپی گئی جس میں وزیرِ اعظم بھٹو مسز فورڈ کے ہم رقص تھے۔
Published: undefined
البتہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے آگے ماضیِ قریب کی گھٹیا کردار کشی بھی بچوں کا کھیل لگ رہی ہے۔ اب جب تک مخالف کی عزت تار تار کرنے والی کوئی ایسی تصویر، آڈیو یا وڈیو سامنے نہ آ جائے جس کا شہرہ چار دانگِ عالم میں پٹ سکے تب تک تسکین نہیں ہوتی۔ بالخصوص پچھلے دو ڈھائی برس میں یہ چلن اتنا بڑھا ہے کہ اب کسی پر کسی تصویر، آڈیو یا وڈیو کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
Published: undefined
تو کیا سیموئیل جانسن نے دو سو برس پہلے یا برنارڈ شا نے تقریباً سو برس پہلے حب الوطنی، سیاست اور بدمعاشیہ کے بارے میں جو رائے دی اس پر آج کے تناظر میں دھیان دیا جائے یا نری بکواس سمجھ کے مسترد کر دیا جائے؟
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز