یہ سب اجتماعی طور پر ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے کا کام کر رہے ہیں اور تشدد اور دہشت کا ماحول بنا رہے ہیں۔ جب ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی کی 'ریزیڈنٹ ویلفیر سوسائٹی‘ نے واٹس ایپ گروپ بنایا، تو میں خوش تھی، چلو گھر بیٹھے ہی ایک دوسرے کی خیر خیریت معلوم ہوتی رہے گی اور سوسائٹی کے حوالے سے معلومات بھی ملیں گی۔ پھر گھر کے کاموں سے فرصت ملتے ہی خواتین باہر جانے کے بجائے گھر سے ہی گوسپ کر پائیں گی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ مواصلات کا یہ ہتھیار نفرت کا ایک سمندر بن جائے گا۔
Published: undefined
چند روز قبل ہی جب دسہرہ کے دن میں واٹس اپ مسیج چیک کرکے، دوستوں کو مبارک باد کے پیغام بھیج رہی تھی تو دیکھا کہ ایک گروپ میں کسی نے میسج بھیجا ہے کہ اس بار وزیر اعظم نریندر مودی نہ صرف راون کے پتلے بلکہ لال قلعہ پر بھی تیر برسا کر اس کو بھی مسمار کریں گے۔ دسہرہ کے تہوار، راون کے پتلے کو جلانے کے عمل کو ہندو راشٹر سے اب جوڑا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ رام نے راون کو مار کر اس دن ہندو راشٹر کی بنیاد ڈالی۔ جئے سری رام، کا نعرہ، جو روحانیت اور عروج آدم کا مظہر تھا، اب کسی کو نفرت کا نشانہ بنانے کا نعرہ بن گیا ہے۔
Published: undefined
ہر صبح پھولوں کے گلدستہ کی تصویر کے ساتھ گڈ مارننگ کی مسیج کے بجائے ہندوتوا ریاست کے قیام کی نوید یا بھگوا پرچم یا اووم کی ایموجیز ہوتی ہیں۔ یہ حال صرف ہاؤسنگ سوسائٹیز کے گروپس تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسکول میں بچوں کے والدین کے گروپ، صحافیوں کے گروپ تک اس سے مبرا نہیں ہیں۔
Published: undefined
شروع شروع میں تو میں نے کچھ حقائق کے ساتھ ان پیغامات کا جواب دینے کی کوشش بھی کی لیکن پھر میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اب ان کو کون بتائے کہ دہلی کا لال قلعہ تو ملک کی شان ہے اور پھر دہلی کے رام لیلا میدان میں رام لیلا منعقد ہی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے کروائی تھی، جہاں وزیر اعظم مودی راون کے پتلے کو آگ کے حوالے کرنے والے تھے۔
Published: undefined
ان گروپوں میں لگتا ہے کہ باضابط کچھ افراد کو بس اس لیے متعین کیا گیا ہے کہ وہ غلط اطلاعات پھیلائیں اور اتنی بار پھیلائیں کہ وہ لوگ ان کو سچ ماننے لگیں۔ اب اگر کسی نے ان کی اطلاع کو درست کرنے کی کوشش کی تو اس پر ایسی چڑھائی ہوتی ہے، کہ بس پناہ لینی پڑتی ہے۔ میرا کچھ ایسا ہی تجربہ ہے۔ ملک دشمن کا لقب دے کر ایسے شخص کی زندگی اجیرن بناتے ہیں۔ پروپگنڈہ کی یہ چکی چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے۔
Published: undefined
کسی جماعت کی حمایت کرنا یا اس کے لیے کمپین چلانا صرف اب انتخابی موسم تک محدود نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اب ہم مسلسل انتخابی موسم میں رہ رہے ہیں۔ الیکشن کے دوران یہ مشینری بس اوور ٹائم کام کرتی ہے۔ عوام تک ہر وہ پیغام پہنچاتی ہے، جو اس نفرت کی سیاست کی حمایت کر سکے۔ پھر وہ ہندو مسلم ہو، یا اونچی ذات اور پسماندہ ذات کا مسئلہ یا پھر ہندوستان پاکستان کے درمیان کھیلا جانے والا کرکٹ میچ۔ نہ صرف واٹس ایپ، بلکہ فیس بک، ٹویٹر یا انسٹاگرام، ایسے تمام مقبول پلیٹ فارم، بھارتی عوام میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
Published: undefined
بھارتی سوشل میڈیا نفرت، غلط معلومات اور خوفناک افواہیں پھیلانے میں معاون ہے۔ اس سے پہلے کہ روس نے 2016ء میں فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی، بھارت نے 2014ء کے انتخابات کے دوران اس فن میں پہلے ہی مہارت حاصل کر لی تھی، جس نے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدارمیں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
Published: undefined
تب سے لے کر اب تک بھارت میں نفرت کی سیاست نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اب یہ بھارتی پارلیمنٹ کے اندر تک بھی پہنچ گئی ہے۔ حکمراں بی جے پی کے ایک منتخب رکن رمیش بدھوڑی نے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے رکن دانش علی کے خلاف بد سلوکی کرکے توہین آمیز زبان استعمال کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جہاں بدھوڑی اب راجستھان صوبہ انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں، علی انصاف کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کا انتظار کر رہے ہیں۔
Published: undefined
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز، جو ملک بھر میں منتخب نمائندوں کے پس منظر کی جانچ کرتی ہے، نے ایک رپورٹ میں منتخب اراکین کے درمیان نفرت انگیز تقریر کے تبادلے کے بارے میں بتایا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ 107 منتخب نمائندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے مقدمات درج ہیں، جس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اول مقام پر ہے اور اس کے 44 ارکین پارلیمان کے خلاف ملک بھر کی عدالتوں میں نفرت سے متعلق مقدمات درج ہیں۔
Published: undefined
گزشتہ 5 سالوں میں 480 امیدوار جن میں نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات درج ہیں وہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق حکمراں بی جے پی سے ہے۔ یعنی انتخابات جیتنے کے لیے نفرت ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے، جو نہاہت ہی تشویش ناک امر ہے۔ انتخابات کے دوران الزامات در الزامات تو سمجھ میں آتا ہے کہ اب غیر سرکاری ہینڈل بھی نفرت پھیلانے اور بی جے پی کے لیے پراکسی مہم چلانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ بی جے پی آسانی سے ان پیغامات کے لیے جوابدہی یا ذمہ داری سے گریز کر لیتی ہے اور ساتھ ہی اگر کسی نے کارروائی کہ تو اس کا رخ واٹس ایپ یا فیس بک پر موڑ دیا جاتا ہے۔ اور نفرت کا بازار ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ مگر بقول حبیب جالب
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined