اس ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل ماحول میں اگر گورننس کی ابتری کا شکوہ نمایاں ہے تو وہیں یہ کھوجنے کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ اس کشتی میں سوار لگ بھگ سب کے سب پاکستانی وسطی و شمالی پنجاب اور ان سے جڑے کشمیری اضلاع سے کیوں تھے؟ اگر تو یہ غربت و بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہو کے ہر قیمت پر یورپ پہنچنا چاہتے تھے تو پھر اس کشتی میں جنوبی پنجاب کے باسیوں، بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کی تعداد زیادہ ہونا چاہیے تھی۔
Published: undefined
ایسا کیوں ہے کہ ترکی، یونان اور لیبیا سے اس سال کے پہلے پانچ مہینوں میں جو لگ بھگ پندرہ ہزار تارکینِ وطن ڈی پورٹ ہوئے ان میں بھی نوے فیصد گوجرانوالہ اور پنڈی ڈویژن کے رہائشی ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں ڈویژن پاکستان کا صنعتی قلب ہیں۔ یہاں متوسط طبقہ کراچی کو چھوڑ کے پاکستان کے دیگرعلاقوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے اور جی ٹی روڈ کی صنعتی پٹی پر ہونے کے سبب مزدوری کے مواقع بھی انہی دو ڈویژنز میں سب سے زیادہ ہیں۔
Published: undefined
پھر بھی ایسا کیوں ہے کہ یہاں کے نوجوان اسمگلروں کو پچیس تا بتیس لاکھ روپے فی کس دے کے ہر قیمت پر یورپ میں اترنا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے سینیئرز سے سن چکے ہیں کہ کس طرح سرحدی محافظوں، اغوا کاروں، بھوک، پیاس، موسم کی سختی، بلیک میلر اسمگلرز اور سفاک سمندر کی شکل میں موت منہ کھولے کھڑی رہتی ہے۔
Published: undefined
انہیں کسی نہ کسی نے ضرور بتایا ہو گا کہ بحیرہ روم کا آدم خور پانی پچھلے دس برس میں تیس ہزار انسان نگل چکا ہے۔ سو میں سے دس ہی دوسرے کنارے تک پہنچ پاتے ہیں۔ باقی نامراد یا پھر لاشوں کی صورت لوٹتے ہیں یا برسوں کی قید بھگتنے کے بعد ڈی پورٹ ہوتے ہیں۔
Published: undefined
یہ سب سننے اور دیکھنے کے بعد بھی جانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ہیومن اسمگلرز اور ان کے سرطان کی طرح پھیلے ہوئے ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی پکڑ دھکڑ کے باوجود ان کے کاروبار کو کوئی گھاٹا درپیش کیوں نہیں؟ ان کی پشت پر جن جن کا ہاتھ ہے انہیں بھی آنے والے کل کے بارے میں کوئی ٹینشن کیوں نہیں؟
Published: undefined
وسطی و شمالی پنجاب کی تو روکی سوکھی بھی پاکستان کے دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت بہتر ہے۔ پھر بھی یہ لڑکے بالے اپنا گھر، زمین، ماں کا زیور، باپ کی جمع پونجی اور واقف کاروں سے قرض ادھار لے کے ایسے سفر پر کیوں روانہ ہوتے ہیں، جس میں کامیابی کا تناسب مرنے یا پکڑے جانے کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
Published: undefined
اس کہانی کے ڈانڈے لگ بھگ ایک سو دس برس پر پھیلے ہوئے ہیں، جب پہلی عالمی جنگ کے موقع پر لاکھوں انسانوں کو توپ کا چارہ بنانے کی خواہش مند سرکارِ برطانیہ نے وسطی اور شمالی پنجاب کے بڑے اور چھوٹے جاگیرداروں، علاقہ معززین اور نمبرداروں کو پابند کیا کہ اگر وہ سرکار بہادر کی خوشنودی، خطاب، خلعت اور مربعے چاہتے ہیں تو یورپ کے محاذ پر بھیجنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں جوان بھرتی کروائیں۔
Published: undefined
چنانچہ جگہ جگہ اشتہار لگ گئے اور خبر پھیل گئی کہ فوج میں بھرتی ہوں، تنخواہ، راشن اور وردی کے ساتھ ساتھ سمندر پار کی سیر بھی مفت۔ جب ان نئے نئے وردی پوشوں نے پہلی بار یورپ دیکھا اور ان کی آنکھیں خیرہ ہوئیں۔ تب سے یہ چمک نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی۔ دوسری عالمی جنگ میں بھرتی کا مرحلہ پہلی جنگ کی نسبت زیادہ آسانی سے طے پا گیا۔
Published: undefined
دوسرا بڑا موڑ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے میں آیا جب سندھ تاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے مابین چھ دریاؤں کا بٹوارا ہو گیا اور عالمی بینک اور امریکہ کی امداد سے دو بڑے ڈیموں میں سے پہلا ڈیم منگلا بنا۔ اس کی تعمیر اور اس کی جھیل بننے کے نتیجے میں لگ بھگ ایک لاکھ نفوس بےگھر ہوئے۔ ان میں سے بہت سوں کو برطانیہ نے کھینچ لیا۔ کیونکہ اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے کام میں افرادی قوت کی قلت کا سامنا تھا۔
Published: undefined
چنانچہ پنڈی، گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، میرپور وغیرہ سے بے روزگار یا ناآسودہ نوجوان برطانوی مڈ لینڈز کی ٹیکسٹائیل فیکٹریوں، کوئلے کی کانوں، اسٹیل سازی اور تعمیراتی منصوبوں اور صنعتوں میں کام کی تلاش میں جوق در جوق ہیتھرو پر اترنے لگے۔ وہیں آن آرائیول ویزہ بھی لگ جاتا اور چند ہی ماہ میں رائل پوسٹ آفس کے توسط سے شہریت کی درخواست بھی دی جا سکتی تھی۔
Published: undefined
رفتہ رفتہ وسطی و شمالی پنجاب اور کشمیر کی معیشت میں یورپ، بالخصوص برطانیہ سے آنے والا پیسہ کچے مکانوں کو پکے گھروں میں اور گھروں کو حویلیوں میں بدلنے لگا۔ تارکینِ وطن اپنے ساتھ یورپ کی کچھ حقیقی اور کچھ مبالغہ آمیز داستانیں بھی ساتھ لاتے۔ ان کی گفتگو بالغ نوجوانوں کے خوابوں کے لیے زرخیز کھیتی ثابت ہوتی۔ یوں اگلی نسل میں بھی خوشحالی بذریعہ نقل مکانی کی جوت جگا دیتی۔
Published: undefined
جب یورپ کو ان کارکنوں کی ضرورت نہ رہی تو اس نے اپنے دروازے رفتہ رفتہ بند کرنے شروع کر دیے۔ مگر جو لوگ پہنچ چکے تھے ان کی داستانوں کے سحر میں مبتلا نوجوان ان پابندیوں کو خاطر میں لانے اور مقامی طور پر ہی اپنی زندگی تعمیر کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اوپر سے گورننس کی روز بروز ابتر ہوتی حالت، نوکریوں کی نیلامی و سفارش، برادری ازم، نجی شعبے کی استحصالی فضا، سرکاری صحت منصوبوں کی زبوں حالی، تعلیم کی بے وقعتی اور امن و امان کی پتلی ہوتی حالت نے رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیرنا شروع کر دیا۔
Published: undefined
حکمران طبقے نے ان حالات کو سنبھالنے کے بجائے اپنی مراعات کے اردگرد کی باڑھیں اونچی اونچی دیواروں میں بدلنی شروع کر دیں۔ جب ریاست نفسا نفسی میں مبتلا ہو جائے تو رعیت میں یہ وائرس پھیلنے کی رفتار چار گنا ہو جاتی ہے۔ ان سوالوں کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ پاکستان کو پچھلے ستر برس میں امریکہ سے جو ستر ارب ڈالر ملے وہ کہاں کہاں لگے۔ پاکستان کا قرضہ اگر آج سوا سو بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے تو یہ قرضہ کس نے کیوں کب لیا اور اس میں سے کتنی رقم تعلیم، صحت، چھت اور روزگار کی فراہمی پر لگی؟
Published: undefined
اور اگر نہیں لگی تو اس قرضے کا سالانہ پچیس ارب ڈالر سود اور قسط پہلے سے ادھ موئے بیس کروڑ سے زائد انسان بجلی، پانی، گیس، پٹرول، مہنگے علاج، مہنگی تعلیم اور ہر موڑ پر رشوت کس خوشی میں بھگت رہے ہیں۔ جبکہ ریاست آج بھی دوست ممالک اور عالمی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہو اور ہر سال روزگار کی منڈی میں بیس لاکھ تازہ نوجوانوں کے اضافے سے کیسے نپٹا جائے؟
Published: undefined
پہلے ریاست کی جانب سے امید افزائی پر عام آدمی کو کچھ نہ کچھ یقین آ جاتا تھا۔ اب تو ایک ادارے کو دوسرے ادارے پر یقین نہیں۔ چنانچہ جس عام آبادی کو آگے صرف دیوار دکھائی دے رہی ہے وہ بھلا کیسے ریاست، حکومت اور ان کے بے روح و بے معنی و لایعنی وعدوں پر اعتبار کرے۔ چنانچہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق آٹھ لاکھ تیس ہزار ہنرمند اور کوالیفائیڈ پاکستنانیوں نے دو ہزار بائیس میں یہ ملک چھوڑ دیا۔ یہ تعداد دو ہزار اکیس میں ملک چھوڑنے والوں کے مقابلے میں ایک سو نوے فیصد زائد ہے۔
Published: undefined
صرف رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں تین لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ جبکہ غیر قانونی طور پر کتنے پاکستانی گزشتہ ڈیڑھ برس میں چلے گئے یا جا رہے ہیں؟ اسمگلروں، ان سے صرفِ نظر کرنے والے حکام اور خود یورپ کا رخ کرنے والے نوجوانوں کے گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگر یونان کے ساحل سے پچاس میل پرے یہ آٹھ سو انسان ڈوبنے کے بجائے بخیریت اٹلی کے ساحل پر اتر جاتے تو شاید کسی سرکاری ادارے کو پتہ بھی نہ چلتا کہ اس لانچ میں کتنے لوگ تھے۔
Published: undefined
جبکہ اب ان کے گھر والے سرکار کے سامنے رو رو کے دہائی دے رہے ہیں کہ ایف آئی اے جیسے ادارے اس طرح کے المیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ لیکن یہی گھر والے اس لانچ کے کسی یورپی ساحل پر پہنچنے کی اطلاع حکومت کے کسی متعلقہ ادارے کو دینے کے بجائے آپس میں مٹھائیاں بانٹ اور کھا رہے ہوتے اور مبارکیاں وصول کر رہے ہوتے۔
Published: undefined
آج بھی اگر کوئی عدالت لواحقین سے کہے کہ آگے آؤ اور ان انسانی اسمگلرز کے نام بتاؤ اور انہیں شناخت پریڈ میں شناخت کرو جنہوں نے تم سے تمہارے لختِ جگر چھین لیے۔ یقین جانئے شاید ہی کوئی آگے بڑھ کے کسی کو پہچانے اور پھر بعد میں بھی اپنے بیان پر بھی قائم رہے۔ اسی لیے کم ازکم میں نے آج تک کسی ہیومن اسمگلر کو عمر قید کی سزا پوری بھگتتے نہ دیکھا نہ سنا۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined