آج سے ٹھیک ایک برس قبل سخت گیر اسلام پسندوں نے ملک بھر میں حکومتی فورسز کے خلاف برق رفتار کارروائی کرکے کابل پر قبضہ کرلیا تھا، جس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی قیادت میں 20 سالہ غیر ملکی فوجی مداخلت کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا۔
Published: undefined
گزشتہ برس 15 اگست کو اس وقت کے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے چند گھنٹے بعد کابل میں داخل ہونے والے ایک عسکریت پسند نعمت اللہ حکمت کا کہنا ہے،"ہم نے جہاد کی اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں اور اپنے ملک کو آزاد کرالیا۔"
Published: undefined
افراتفری کے ماحول میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کا سلسلہ 31 اگست تک جاری رہا جبکہ افغانستان سے نکل جانے کی کوشش میں ہوائی جہاز پر سوار ہونے کے لیے ہزاروں افراد کا ہجوم کابل ہوائی اڈے پر جمع ہوگیا تھا۔ ہوائی اڈے پر ہجوم کے دھاوا بول دینے، جہاز کے چھت پر چڑھ جانے اور امریکی فوجی کارگو طیاروں کے رن وے پر آگے بڑھنے کے دوران انہیں پکڑنے کے لیے دوڑتے ہوئے لوگوں کی تصویریں پوری دنیا نے دیکھیں اور یہ واقعات آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔
Published: undefined
گوکہ طالبان حکام نے اقتدار پر قبضہ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کسی سرکاری تقریب کے انعقاد کا ابھی تک اعلان نہیں کیا ہے تاہم سرکاری ٹیلی ویژن نے بتایا کہ خصوصی پروگرام نشر کیے جائیں گے۔
Published: undefined
حالانکہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی 38 ملین آبادی انتہائی غربت سے دوچار ہے تاہم طالبان جنگجووں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے حوالے سے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔
Published: undefined
نعمت اللہ حکمت، جو اب صدارتی محل کی نگرانی کرنے والی خصوصی فورسز کے ایک رکن ہیں، کہتے ہیں،"جب ہم کابل میں داخل ہوئے اور جب امریکی یہاں سے نکل گئے، وہ ہمارے لیے خوشی کے سب سے بہترین لمحات تھے۔"
Published: undefined
تاہم عام افغان شہری اور بالخصوص خواتین کو طالبان کی واپسی کے بعد زیادہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طالبان نے ابتدا میں سخت ترین اسلامی قوانین میں نرمی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ خواتین پر نئی نئی پابندیاں عائد ہوتی رہیں اور اب وہ طالبان کے اسلام کے سخت ترین ورژن پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔
Published: undefined
ہزاروں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول چھوڑ دینے پڑے جبکہ خواتین کو بہت ساری سرکاری ملازمتوں میں واپس لوٹنے سے روک دیا گیا۔ مئی میں طالبان حکومت نے عورتوں کو پورا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا۔
Published: undefined
کابل کی ایک رہائشی اوغائی عامل کہتی ہیں،"جس دن سے وہ یہاں آئے ہیں زندگی کی خوبصورتی ختم ہوگئی ہے۔" انہوں نے مزید کہا،"ہم سے ہر چیز چھین لی گئی، حتی کہ وہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی داخل ہوگئے۔"
Published: undefined
سنیچر کے روز طالبا ن عسکریت پسندوں نے کابل میں خواتین کی ایک ریلی کو منتشر کرنے کے لیے عورتوں کو نہ صرف مارا پیٹا بلکہ فائرنگ بھی کی۔
Published: undefined
گوکہ افغان شہری اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ملک میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے تاہم انسانی بحران نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں انتہائی ابتر بنادی ہے۔
Published: undefined
طالبان کے اہم مرکز قندھار میں ایک دکاندار نور محمد بتاتے ہیں کہ "لوگ ہماری دکانوں پر آتے ہیں اور جب ہم سے اشیاء کی انتہائی مہنگی قیمتوں کے متعلق شکایت کرتے ہیں تو ایک دکاندار کے طورپر ہمیں خود سے نفرت ہونے لگتی ہے۔"
Published: undefined
طالبان عسکریت پسند تاہم غیر ملکی افواج پر فتح کو موجودہ اقتصادی بحران کے مقابلے زیادہ خوشی اور اطمینان کا سبب قرار دیتے ہیں۔ کابل کے ایک سرکاری پارک کی حفاظت پر مامور ایک جنگجو کا کہنا تھا، "ہم غریب ہیں، ہمیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن افغانستان میں اسلام کا پرچم اب ہمیشہ سربلند رہے گا۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز