ايمسٹرڈم کے مغربی حصے ميں بوس اين لومرپلائن چوراہے پر کھڑی عمارہ الگ ہی دکھائی ديتی ہے۔ اس نے برقع پہن رکھا ہے، جو بارش ميں بھيگ چکا ہے۔ عمارہ کہتی ہے، ''لوگ سمجھتے ہيں کہ يہ برقع ميں اپنے خاوند کے کہنے پر پہنتی ہوں مگر جب ميں نے برقع پہننا شروع کيا، اس وقت ميں غیر شادی شدہ تھی۔‘‘ عمارہ کے بقول برقع پہننے والوں کو 'دشمن‘ کے طور پر ديکھا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ يہ اسے تنہائی کا احساس دلاتا ہے، جيسے اسے کسی کنارے دبايا جا رہا ہو۔ ''يہ نا انصافی ہے۔ مجھے امتيازی سلوک کا سامنا ہے، صرف ميرے مذہب اور ميرے انتخاب کی وجہ سے۔‘‘
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
ہالينڈ ميں گزشتہ برس يکم اگست کو برقع پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ فرانس اور بيلجيئم ميں بھی چہرہ مکمل ڈھانپنے يا برقع پر پابندياں نافذ ہيں مگر ہالينڈ ميں متعارف کردہ پابندی ذرا مختلف ہے۔ ہالينڈ ميں پبلک ٹرانسپورٹ، سرکاری دفاتر، اسکولوں اور ہسپتالوں ميں برقع پہننا منع ہے مگر عوامی مقامات و سڑکوں پر برقع پہننے ميں کوئی حرج نہيں۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
ہالينڈ ميں عوام کی سلامتی کا معاملہ کھڑا کر کے برقع پر پابندی کی تحريک چودہ برس قبل سے جاری تھی۔ اس مہم کو انتہائی دائيں بازو کی اسلام مخالف تنظيم پارٹی فار فريڈم کے رہنما گيئرٹ ولڈرز نے شروع کيا تھا۔ يکم اگست سن 2019 سے عائد قانون کے تحت چہرے کا نقاب نہ ہٹانے يا حکام کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ڈيڑھ سو سے ساڑھے چار سو يورو کا جرمانہ ہے۔ ڈچ پوليس کے مطابق اب تک شاذ و نادر ہی کسی پر يہ جرمانہ عائد کيا گيا ہے۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
عمارہ کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ عوامی مقامات پر برقع پہننے کے اجازت ہے مگر لوگ پہلے کے مقابلے ميں زيادہ جارحانہ رويہ اختيار کرتے جا رہے ہيں۔ اس کے بقول پابندی سے قبل جب کبھی وہ خريداری کے ليے سپر مارکيٹ وغيرہ جايا کرتی تھی تو لوگ اسے اپنے سے دور کرنے يا جگہ مانگنے کے ليے شاپنگ کارٹ سے اسے دھکا ديا کرتے تھے۔ ''اب لوگوں کا رد عمل زيادہ جارحانہ ہے۔ ايک شخص نے تو مجھے گاڑی سے مارنے کی کوشش بھی کی۔‘‘
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
آنے اور ٹروس پوسٹاما مغربی ايمسٹرڈيم کی ايک مارکيٹ ميں بيٹھی چائے پی رہی ہيں۔ يہ مارکيٹ تارکين وطن ميں کافی مقبول ہے۔ مگر ان دونوں بہنوں کا کہنا ہے کہ پابندی کے بعد اس محلے ميں کچھ نہيں بدلا۔ ان کے بقول بہت کم لوگ ہی مکمل چہرہ ڈھانپتے ہيں۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
قريب ہی ليلی بيٹھی ہيں۔ وہ البتہ پابندی سے خوش ہيں۔ ''نقاب بہت زيادہ ہے۔ آپ ايک يورپی ملک ميں رہ رہے ہيں، آپ کو اپنا چہرہ يوں چھپانے کی کيا ضرورت ہے؟ ميں نے بھی اسکارف پہن رکھا ہے، بس يہ کافی ہے۔‘‘
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
سٹی کونسل ميں کام کرنے والے اطالوی صومالی ورکر گوئيليو بنوٹی بھی نئے قانون سے مطمئن ہيں۔ ''برقع عورت کی اہميت کی نفی کرتا ہے، جيسے وہ ہيں ہی نہيں۔‘‘
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
ہالينڈ دنيا بھر ميں آزاد خيالی کے ليے مشہور ہے ليکن عمارہ کا کہنا ہے کہ اس ملک ميں برداشت کا مادہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ برقع پر پابندی سے متعلق قانون کو 'اسلام پر حملہ‘ تصور کرتی ہيں اور يہ بھی کہ يہ قانون ان کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ ڈچ آئين انہيں فراہم کرتا ہے۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
ايک اندازے کے مطابق پورے کے پورے ہالينڈ ميں صرف ڈيڑھ سو کے لگ بھگ خواتين برقعہ پہنتی ہيں يا چہرہ پر مکمل نقاب کرتی ہيں۔ صفا تيس سالہ مسلم خاتون ہيں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ ہالينڈ ميں يہ پابندی مسلمانوں ميں خوف کا باعث بنی۔ صفا کا کہنا ہے کہ اسی سبب ان کی کئی سہيلياں اب ديگر ممالک منتقل ہو گئی ہيں۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
عمارہ اور ديگر مسلمان خواتين کو کووڈ انيس کی وبا کی وجہ سے متعارف کردہ احتياطی تدابير ميں اب ايک طنز سا دکھائی ديتا ہے۔ ہالينڈ ميں پبلک ٹرانسپورٹ پر چہروں پر ماسک پہننا لازم ہے مگر عمارہ کا کہنا ہے کہ صحت عامہ کے ليے ايک عمل قبول ہے مگر مذہبی عقائد کے ليے نہيں۔ عمارہ تنہا نہيں۔ ہالينڈ ميں کئی ادارے متحرک ہيں کہ برقع پر پابندی ختم کی جائے۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM IST
تصویر: پریس ریلیز