ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا یا نہیں یا اس واقعے کے درپردہ اصل حقائق کیا ہے، یہ واضح نہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اس معاملے پر اپنی رائے ضرور دے رہے ہیں۔ اس معاملے پر بھی پاکستان میں موجود سماجی تقسیم واضح ہے کہ جہاں بہت سے صارفین فقط مسلکی اختلاف کی بنیاد پر خون دینے سے انکار کیے جانے کی مذمت کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب کچھ ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو اس عمل کی یہ کہہ کر حمایت کر رہے ہیں کہ یہ سراسر خون دینے والے شخص کی صوابدید ہے کہ وہ خون دینے پر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں۔
Published: undefined
خون دینے پر آمادہ ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ یہ عمل اہم ہے کہ کیا پاکستان میں فرقہ وارانہ نفرت کی بنیادیں ایسی گہری ہو چکی ہیں کہ کوئی شخص فقط اس بنیاد پر کسی مریض کو خون دینے سے انکار کر سکتا ہے؟
Published: undefined
یہ واقعہ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں پیش آیا، جہاں کورونا وائرس کو شکست دینے والے ایک شخص سے ایک ایسے مریض کے لیے خون طلب کیا گیا جو ابھی اس وبا سے لڑ رہا ہے تاکہ اس کے پلازمہ کو اس وائرس کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا جا سکے، تاہم اس شخص نے مریض کو یہ کہہ کر خون دینے سے انکار کر دیا کہ مریض اہل تشیع ہے۔
Published: undefined
پمز ہسپتال میں کورونا وائرس سے لڑائی میں مصروف اور تشویش ناک صورت حال سے دوچار مریض کے خاندان نے پلازمہ کی تلاش میں اس شخص سے رابطہ کیا تھا۔ بعد میں مریض کو کسی دوسرے شخص سے خون میسر آ گیا۔
Published: undefined
پاکستانی سوشل میڈیا صارف اور میڈیکل کی طالبہ انزلہ کاظمی نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے، ''اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ ایک ڈونر نے فقط اس لیے پلازمہ دینے سے انکار کر دیا کیوں کہ مریض ایک شیعہ تھا، میری مدد کیجیے۔‘‘ انزلہ کے مطابق وہ اس واقعے کی چشم دید گواہ ہیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انزلہ نے کہا کہ اس خبر سے چوں کہ فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ تھا، اس لیے ابتدا میں انہوں نے یہ پوسٹ فقط اپنے قریبی حلقے کے ساتھ شیئر کی تھی، تاہم بعد میں چند دوستوں نے انہیں کہا کہ اس موضوع پر بات ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈونر یا مریض سے متعلق تفصیلات اس لیے فراہم نہیں کر رہیں کیوں کہ اس سے ان افراد اور ان کے خاندان کے لیے، جو پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت سے گزرے ہیں، مسائل پیدا ہوں گے۔
Published: undefined
انزلہ کاظمی کورونا وائرس کے شکار مریضوں کی مدد کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب تک اس طرح کی صورت حال انہیں یا انہیں کی ٹیم کو پہلے دیکھنے میں نہیں ملی کہ جہاں کسی مریض کو فقط مسلک کی بنیاد پر خون دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
Published: undefined
انزلہ نے کہا کہ وہ اس ڈونر کا نام اس لیے ظاہر نہیں کر رہی ہیں کیوں کہ ان کا مقصد اس شخص کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ سماج میں عدم برداشت کی افسوس نال صورت حال کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متاثرہ مریض کے لیے پلازمہ کا انتظام ایک اور جگہ سے ہو گیا ہے اور اب اس مریض کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔
Published: undefined
اس سے قبل کراچی ہی میں ایک علاقے میں خوراک تقسیم کرنے والے ایک ادارے نے غیرمسلم افراد کو یہ امداد دینے سے انکار کر دیا تھا۔
Published: undefined
ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف سارہ حیدر یہ خبر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھتی ہیں، ''ایک ڈونر کو جب یہ علم ہوا کہ مریض شیعہ ہے، تو اس نے پلازمہ دینے سے انکار کر دیا۔‘‘
Published: undefined
اس پر ایک اور صارف سارہ گیلانی کہتی ہیں، ''ایک مسلم دوست نے ایک مریض کا علاج (ہماری ہاؤس جاب کے دوران) یہ کہہ کر کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ مریض مسیحی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہم کون سے خدا اور کون سے پیغمبر کے ماننے والے ہیں؟‘‘
Published: undefined
ایک اور صارف سید حسن کاظم یہ خبر شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ''اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دنیا بھر کے مسلمان اس معاملے کو کس طرح نظر انداز کرتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی طرح شیعہ فوبیا بھی ایک حقیقت ہے، جس کا ہر سمت سے سامنا ہے۔ اسلاموفوبیا کی گندگی اور شیعہ فوبیا کی گندگی میں کوئی فرق نہیں۔‘‘
Published: undefined
ایک اور صارف نائلہ عنایت لکھتی ہیں، ''کیا اب پلازمہ کا بھی مذہب ہے؟‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined