بھارت میں ایسے وقت جب کہ ہر کوئی کورونا کے قہر سے پریشان ہے، کچھ لوگوں نے اسے پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ دواؤں سے لے کر انجکشن تک اور ایمبولنس سے لے کر آخری رسومات ادا کرنے تک ہر جگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ دوائیں اور آکسیجن گھر پر سپلائی کرنے کے نام پر دھوکہ دہی کے واقعات بھی مسلسل ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
دہلی پولیس نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے جس نے دہلی کے نواح گروگرام سے لدھیانہ تک ایک لاش کو لے جانے کے لیے اس کے عزیزوں سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے وصول کیے تھے۔ ملزم نے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن بڑی منت سماجت کے بعد بیس ہزار روپے کم کرنے پر تیار ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملزم پیشے سے ڈاکٹر ہے۔
Published: undefined
دہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر اروجا گوئل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''میموہ کمار بندیلوال ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ وہ جنوبی دہلی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ملازم تھے لیکن دو برس قبل ملازمت چھوڑ کر ایمبولنس سروس کمپنی شروع کر دی۔ بندیلوال گزشتہ ایک ماہ سے مریضوں کے رشتہ داروں سے بہت زیادہ کرایہ وصول کر رہے تھے اور اس طرح سینکڑوں افراد کو دھوکہ دے چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
متاثرہ شخص نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں جب اپنے رشتہ دار کی لاش لے جانے کے لیے ہسپتال میں ایمبولنس نہیں ملی، تو دہلی کی ایک کمپنی سے رابطہ کیا۔ بندیلوال نے گروگرام سے لدھیانہ تک جانے کے لیے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ بہر حال وہ بعد میں بیس ہزار روپے کم کرنے پر راضی ہو گئے۔
Published: undefined
بھارتی دارالحکومت دہلی میں لوگوں کو ہسپتالوں سے لاشوں کو شمشان گھاٹوں یا قبرستانوں تک لے جانے کے لیے ایمبولنس والوں کو ہزاروں روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ ایمبولنس والے آٹھ سے دس کلومیٹر کی دوری کے لیے بھی بیس سے پچیس ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔
Published: undefined
حد تو یہ ہے کہ لاش کو ایمبولنس پر رکھنے کے لیے الگ سے پیسے دینے پڑ رہے ہیں۔ گوبند پورم کے امیت گپتا بتاتے ہیں کہ ایمبولنس والے نے اپنے دو دوستوں کو بلا کر لاش کو ایمبولنس پر رکھوانے کے عوض سات سات ہزار روپے فی کس وصول کر لیے۔
Published: undefined
وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں عوام سے 'آپدا میں اوسر‘ (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ پر عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی مودی کو طنز کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
Published: undefined
کانگریس کے سینئر رہنما اور ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک ٹوئیٹ کرکے کہا، ''لُوٹ، لُوٹ اور لُوٹ۔ یہی کر رہی ہے مودی سرکار! کیا آپدا میں لوٹ اسی طرح جاری رہے گی؟ اب کورونا کی ویکسین پر بھی پانچ فیصد ٹیکس! کچھ تو رحم کرو مودی جی، بھگوان آپ کو معاف نہیں کرے گا!‘‘
Published: undefined
جب سے کورونا وائرس کی دوسری لہر آئی ہے، بعض دواؤں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے مریضوں کو دیے جانے والے انجیکشن ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹ میں قیمت بیس ہزار روپے عام بات ہے۔ بعض پریشان حال افراد اپنے مریضوں کی جان بچانے کے لیے ایک انجکشن پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک میں خریدنے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوٹ کھسوٹ کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
Published: undefined
دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر چنمئے بسوال کا کہنا تھا کہ پولیس نے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے والوں پر نگاہ رکھنے کے لیے کئی ٹیمیں بنائی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہم فرضی خریدار بنا کر دوا کی دکانوں میں بھیجتے ہیں۔ ہماری ٹیمیں ہسپتالوں کے باہر بھی تعینات ہیں۔ ہم نے اب تک کم از کم 91 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
ان دنوں سب سے زیادہ مانگ آکسیجن گیس سلنڈر کی ہے اور دھوکے باز اس کا خوف فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر گنگاسہائے مینا نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا، ''لوگ آکسیجن کی کمی سے مر رہے ہیں ایسے میں پریشان لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ منافع کما رہے ہیں۔ ضروری طبی آلات من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر کچھ لوگ مریضوں کے رشتہ داروں سے بیڈ دلانے اور آکسیجن وغیرہ کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ کے فرار ہو رہے ہیں۔ سوچیے اگر کوئی چور مریض کی دوا کے پیسے لے کر بھاگ جائے تو کیسا لگے گا۔‘‘
Published: undefined
دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے معاملات کے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت درج کرانے کے لیے ہی کئی تھانوں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔
Published: undefined
کورونا پازیٹیو کے مریضوں میں آکسیجن کی سطح معلوم کرنے کے لیے استعمال ہونے والا آلہ آکسی میٹر بھی کئی گنا زیادہ قیمت میں فروخت ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ایک نمائندے کا کہنا ہے کہ اسے خود بھی مجبورا ً یہ آلہ ڈھائی ہزار وپے میں خریدنا پڑا، جو کہ عام طورپر آٹھ سو روپے میں ملتا ہے۔
Published: undefined
آکسیجن سلنڈر کی ذخیرہ اندوزی اور آکسیجن کنسنٹریٹرز کی بلیک مارکیٹنگ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ وسطی دہلی کے مشہور علاقے خان مارکیٹ میں پولیس نے جمعے کے روز نونیت کالرا نامی ایک شخص کے ریستوراں 'خان چاچا‘ پر چھاپہ مار کردرجنوں آکسیجن کنسنٹریٹرز ضبط کیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula