گزشتہ ہفتے انقرہ نے فرینکفرٹ میں دو ترک نامہ نگاروں کو حراست میں لینے کے دعوے کے بعد جرمنی کے سفیر کو طلب کرلیا تھا۔ برلن نے ترک سفیر کو بتایا کہ وہ آزادی صحافت کی خلاف ورزی کے ترکی کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
Published: undefined
یہ دونوں نامہ نگار ترک روزنامہ صباح کے فرینکفرٹ بیورو کے لیے کام کرتے تھے۔ جرمن وزات خارجہ نے کہا کہ اس نے انقرہ کے سفیر کو مطلع کیا ہے کہ، "جرمن حکومت آزادی اظہار اور پریس کے ساتھ جرمنی میں عدلیہ کے حوالے سے ترک حکومت کے الزامات کی سختی سے مسترد کرتی ہے۔"
Published: undefined
ایک مقامی جرمن وکیل نے اس بات کی تردید کی ہے کہ صحافی گرفتار کیے گئے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس جوڑے پر "ذاتی ڈیٹا کی خطرناک ترسیل" کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے ان صحافیوں کو "ہراساں کرنے اور دھمکانے" کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ "آزادی صحافت کے خلاف کارروائی" ہے۔
Published: undefined
ترک وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مبینہ گرفتاریاں "جان بوجھ کر کی گئی کارروائی" تھی۔ صدر رجب طیب اردوآن کے میڈیا ڈائریکٹر فرحتین التون نے صحافیوں کی مبینہ گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے "صحافیوں کو خاموش کرنے کی جرمنی کی کوشش" قرار دیا اور "اس ملک میں پریس کی آزادی پر جبر" پر تشویش کا اظہار کیا۔
Published: undefined
یہ تنازع ترکی میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔ ایردوآن پہلے راونڈ میں گوکہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم وہ اپوزیشن رہنما کمال کلیچدار اولو سے آگے رہے۔
Published: undefined
جرمنی میں مقیم ترک تارکین وطن بیرون ملک مقیم ترکوں کا تقریباً نصف ہیں، جنہوں نے انتخابات میں ووٹ دیا۔ ایردوآن کو جرمنی میں 65 فیصد ووٹ ملے۔ اخبارصباح کا تعلق ترکواز میڈیا گروپ سے ہے، جس کے ایردوآن کے خاندان سے تعلقات ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز