بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفیم کا کہنا ہے کہ دنیا کو مزید مساوی بنانے کے لیے 2030ء تک ارب پتی افراد کی موجودہ تعداد کو نصف کرنے کی ضرورت ہے۔ پیر کو شائع کردہ 'سروائیول آف دی رچسٹ' یعنی امیروں کی بقا نامی اس رپورٹ میں آکسفیم نے اس مقصد کے لیے دنیا کے امیر ترین لوگوں پر مزید ٹیکس لگانے اور "بلینیئر بسٹنگ" پالیسیاں متعارف کرنے پر زور دیا۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں ارب پتی افراد کی دولت میں دوگنا کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد نے نچلے درجے کے 50 فیصد لوگوں کی نسبت 74 گنا زیادہ دولت جمع کی ہے۔
Published: undefined
آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ کووڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کاسٹ آف لیونگ یعنی رہائشی اخراجات میں اضافے سے پیدا ہونے والے بحران اور روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اشیا خورونوش اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دوران امیر افراد کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں موجود اعدادوشمار کے مطابق 2020ء سے اب تک آمدنی کے مقابلے میں مہنگائی زیادہ تیزی سے بڑھی ہے جبکہ ارب پتی افراد کی دولت میں روزانہ 2.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران اشیا خورونوش اور انرجی کمپنیوں کے منافع میں بھی دو گنا سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدم مساوات میں کمی کے لیے آکسفیم نے امیر افراد پر مزید ٹیکسز لگانے کی تجویز دی ہے۔
Published: undefined
آکسفیم کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد پر مزید ٹیکسز لگائے جائیں اور "بلینیئر بسٹنگ" پالیسیاں اپنائی جائیں تو 2030ء تک ارب پتی افراد کی موجودہ تعداد میں نصف تک کی کمی ہو جائے گی۔ اس بین الاقوامی امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے ارب پتی افراد کی تعداد اور ان کی دولت کو 2012ء کی سطح پر واپس لایا جا سکے گا۔
Published: undefined
آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ "منافع خوری کے بحران" کو روکنے کے لیے حصص پر منافع ( ڈیویڈنڈز ) پر عائد ٹیکسز میں اضافے کی ضرورت ہے اور جمع کی گئی دولت پر دیگر ٹیکس بھی لگانے چاہییں۔ آکسفیم نے دنیا کی امیر ترین ایک فیصد افراد پر ایک مستقل ٹیکس لگانے کی تجویز بھی دی۔
Published: undefined
امریکی خبر رساں ادارے پرو پبلکا کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا کے کئی امیر ترین لوگ مشکل سے ہی کوئی ٹیکس دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور سے ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2014ء اور 2018ء کے درمیان حقیقتا ان کا ٹیکس ریٹ صرف3.2 فیصد تھا۔ اسی طرح ایمازون کے بانی جیف بیزوس ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دے رہے تھے۔
Published: undefined
اس کے مقابلے میں یوگینڈا میں آکسفیم سے منسلک ایک تاجر اپنے منافع کا 40 فیصد حصہ ٹیکس کی مد میں دیتی ہیں۔ آکسفیم کی یہ رپورٹ ایسے موقع پر شائع ہوئی ہے جب دنیا بھر سے سی۔ای۔اوز، سیاسی سربراہان اور دیگر نامور شخصیات ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں اکھٹے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز