روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں سیکس کے موضوع پر گفتگو کا امکان شادی کے بعد پہلی رات کے موقع پر خیال کیا جاتا ہے، یہ بات عرب انگلش سیکس تعلیم کے کورسز کا سلسلہ چلانے والی نور امام نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت ساری خواتین کسی اور کے سامنے پہلی مرتبہ عریاں ہوتی ہیں اور اسی طرح پہلی مرتبہ کسی مرد کو دیکھتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کوئی ماہر نفسیات بھی نہیں ہوتا جو کسی مشکل صورت حال سے نکال کر اس عمل کو محبت اور بہت ہی رازدارانہ بے تکلفی میں تبدیل کر دے۔
Published: undefined
نور امام کے آن لائن عرب انگلش کورسز کا جائزہ لیں تو وہ کسی عورت کی عنقریب ہونے والی شادی پر فوکس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کورسز میں عرب لڑکیوں کو جسمانی خطوط اور جنسی اعضاء کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل کے پارٹنر یا شوہر کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کرنے میں غیر ضروری گریز یا اجتناب مت کریں۔
Published: undefined
امام کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تعلیم اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ برسوں لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ سیکس ایک بُری بات اور کرنا خراب فعل ہے اور لڑکیاں اپنی شادی کی پہلی رات اسی تناظر میں شدید خوفزدہ ہوتی ہیں۔
Published: undefined
نور امام کے مطابق دوسری جانب مرد اپنے ٹین ایج دور میں جنسی خواہشات کی تکمیل کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرتے۔ نور امام کے مطابق ایسے بہت سارے واقعات ہیں جب شادی کی پہلی رات مرد اپنی بیوی کی سوچ کا اندازہ لگاتے ہوئے اُسے تذلیل سے گریز نہیں کرتے۔
Published: undefined
نور امام کے سیکس ایجوکیشن کے پروگرام میں پوچھے گئے سوالات و جوابات نے مشرقِ وسطیٰ کی اعصاب (Nerve) کو چھوا ہے۔ انہوں نے دو ہزار خواتین کو نسوانی معاملات کی تربیت دی اور اس میں ماہواری، جنسی اعضاء اور سیکس سے منتقل ہونے والی بیماریوں بارے معلومات بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
امام کے سوشل میڈیا چینلز کو 14 لاکھ فالورز کی پسندیدگی حاصل ہے اور فیس بک پر فالورز کی تعداد 18 ہزار ہے۔ اس کے علاوہ انسٹاگرام پر ان کے فالورز تین لاکھ آٹھ ہزار جب کہ ٹِک ٹاک شائقین کی تعداد 10 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔
Published: undefined
یہ امر اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اکثر ممالک میں سیکس ایجوکیشن انتہائی محدود ہے۔ اب ذرا مصر کی مثال لیتے ہیں۔ مصر میں ہیلتھ کے ماہرین اور آبادی کے مسائل کے ماہرین سیکس ایجوکیشن کے اب بھی مخالف ہیں حالانکہ اس بابت گفتگو سن 1990 میں شروع ہو گئی تھی۔
Published: undefined
ان کا موقف ہے کہ سیکس کو صرف اور صرف مقامی کلچر کے تناظر میں لیا جانا ضروری ہے۔ ایسے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس کی اصطلاحات کو بھی افزائش نسل یا انسانی صحت کے تقاضوں کے تناظر میں دیکھا جانا اہم ہے۔
Published: undefined
ایسی سوچ کے حامل مصری معاشرے کے بیشتر خاندانوں میں سیکس ایجوکیشن کو فحاشی کے زمرے میں لیا جاتا ہے اور کم عمر بچوں کو اس مناسبت سے شادی سے قبل معلومات دینا ناماسب ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ایک منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ جنسی عمل سے افزائش پانے والے ایچ آئی وی ایڈز وائرس کو بھی ایک ممنوعہ موضوع کے طور پر لیا جاتا ہے اور دوسری جانب اس بیماری سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
Published: undefined
تحریر انسٹیٹیوٹ برائے مِڈل ایسٹ پالیسی سے وابستہ ریسرچر حبیبہ عبدالآل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مصر کی جنسی تعلیم سے نا آشنا آبادی کو ایڈز کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ نا ہونے کے برابر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined