بھارت میں اس پیش رفت کو اسلاموفوبیا میں شدت قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ کرناٹک میں اگلے برس ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مدنظر ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس رجحان سے پریشان بھی دکھائی دیتی ہے۔
Published: undefined
جنوبی بھارتی ریاست کرناٹک میں حلال مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے، مسجدوں میں اذان اور اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے مطالبے کے بعد شدت پسند ہندو تنظیموں نے اب ہندوؤں کو مسلم ٹور آپریٹرز اور ڈرائیوروں والی گاڑیوں پر مندر یا تیرتھ کے لیے نہ جانے کی اپیل کی ہے۔
Published: undefined
بھارتھا رکشنا ویدیکے نامی تنظیم نے جمعے کے روز ہندوؤں سے اپیل کی وہ مسلم ڈرائیوروں کے ساتھ تیرتھ استھانوں یا مندروں میں نہ جائیں۔ اس نے مسلم ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی ملکیت والی گاڑیوں کو استعمال نہ کرنے کی بھی اپیل کی۔ ایک دوسری شدت پسند ہندو تنظیم سری رام سینا نے بھی اس اپیل کی حمایت کی ہے۔ سری رام سینا نے چند روز قبل ہندوؤں کو مسلم پھل فروشوں سے پھل نہ خریدنے کی بھی اپیل کی تھی۔
Published: undefined
کرناٹک کے ساحلی شہر منگلورو میں گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ہندوؤں سے ایک مخصوص برانڈ کی آئس کریم کے بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر وائرل اس پیغام میں کہا گیا ہے، ''ہندو تاجروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مصنوعات سے ایک ماہ کے اندر اندر حلال سرٹیفیکیشن کو حذف کر دیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کرناٹک میں اس برانڈ اور اس کے آئس کریم پارلرز کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔‘‘
Published: undefined
متعلقہ آئس کریم کمپنی کے ایک نمائندے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''حلال مصنوعات کے حوالے سے لوگوں میں کافی غلط فہمیاں ہیں۔ حلال کا مطلب ہے کہ یہ چیز کھانے کے لیے مناسب ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاﹰ نہیں کہ اس میں گوشت کے اجزاء شامل ہیں۔ ہم تو آئس کریم میں انڈے کا استعمال بھی نہیں کرتے۔‘‘
Published: undefined
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے کٹر قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرنے والے یوگا گرو بابا رام دیو نے بھی اپنی کمپنی پتنجلی کے لیے حلال سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہوا ہے۔
Published: undefined
معروف دانشور اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ حلال اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا، ''حلال کا مطلب ہوتا ہے کہ جس چیز پر اس کا سرٹیفیکٹ لگا ہے، وہ مذہبی عقیدہ رکھنے والے مسلمانو ں کے لیے قابل استعمال ہے۔ جس طرح یہودی مذہبی عقیدے کے لوگ 'کوشر‘ سرٹیفیکیٹ والی اشیائے خوردنی استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہندوؤں میں بھی کھانے پینے کی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو ناقابل قبول ہیں، تو ان کی بھی فہرست جاری کرنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر اپوروانند کا کہنا تھا، ''اس کے بجائے دوسرے مذاہب میں حلال چیزوں کے لیے بائیکاٹ کی اپیل کرنا یکسر بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔‘‘
Published: undefined
بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطابق بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی حلال مصنوعات کے تنازعے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
Published: undefined
رپورٹوں کے مطابق پارٹی کے اعلی رہنماؤں نے ریاستی وزیر اعلیٰ باسوراج بومئی سے کہا ہےکہ وہ حجاب، حلال گوشت اور اس طرح کے دیگر تنازعات کے بجائے پارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے ترقیاتی پروگراموں پر زیادہ توجہ مرکوز کریں کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ بومئی کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی ایسے متنازعہ بیانات سے پریشان ہیں۔
Published: undefined
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے متنازعہ بیانات دینے والوں میں بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کے چھوٹے رہنما ہی نہیں بلکہ بڑے رہنما بھی شامل ہیں۔ بی جے پی کے قومی جنرل سیکرٹری سی ٹی روی نے پچھلے دنوں حلال گوشت کو مسلمانوں کا 'اقتصادی جہاد‘ قرار دیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined