ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست کرناٹک میں گزشتہ دنوں اس وقت ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا، جب ریاستی حکومت نے اسکول کی نصابی کتابوں میں ترمیم کرنے کی کوشش کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ان تبدیلیوں کے ذریعے دراصل ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
Published: undefined
کرناٹک کی حکومت نصاب میں کس حد تک ترمیم کرناچاہتی ہے یہ ابھی واضح نہیں کیونکہ نئی کتابیں ابھی دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق دلت سماجی مصلح پیریار اور نارائن گرو، جنگ آزادی کے سورما بھگت سنگھ اور ایسی دیگر شخصیات سے متعلق مضامین کتابوں سے حذف کر دیے گئے ہیں۔
Published: undefined
اطلاعات کے مطابق ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگوار کی ایک تقریر نصابی کتابوں میں شامل کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا سیاسی کیریئر آر ایس ایس سے ہی شروع کیا تھا، جو حکمراں بی جے پی کی مربی تنظیم بھی ہے۔ تقریباً 60 لاکھ اراکین پر مشتمل آر ایس ایس کی درجنوں ذیلی تنظیمیں بھارت اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ہندوتوا کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں مثلاً گجرات، اتراکھنڈ اور ہریانہ نے بھی آئندہ تعلیمی سال سے نصاب میں ہندوؤں کی مقدس سمجھی جانے والی کتاب بھگوت گیتا شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
Published: undefined
اتراکھنڈ کے وزیر تعلیم دھن سنگھ راوت نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''آئندہ سال سے قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی جائے گی۔ ہم ویدوں، گیتا، رامائن اور اتراکھنڈ کی تاریخ کو نصاب میں شامل کریں گے۔‘‘ ماہرین تعلیم، بی جے پی کے ناقدین اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے نصابی کتابوں میں مجوزہ تبدیلیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی تاریخ کو ہندو قوم پرست جماعت کے نقطہ نظر سے لکھنے کی کوشش ہے۔
Published: undefined
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعہ تاریخ میں پروفیسر آر مہالکشمی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اسکول کی سطح پر نصابی کتابوں میں مجوزہ تبدیلی تشویش کا سبب ہے کیونکہ اسے علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
ناقدین کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی آ ر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیموں نے حکومت کے بیشتر اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور بالخصوص نئی تعلیمی پالیسیوں کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیا ہے۔
Published: undefined
بی جے پی کے رکن پارلیمان ونئے سہسرا بدھے کی قیادت والی تعلیم پر پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ برس تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کی تجویز پیش کی تھی۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ اسکول کی کتابوں میں بہت سی تاریخی شخصیات اور مجاہدین آزادی کو "غلط اور نامناسب انداز" میں پیش کیا گیا ہے اور بالخصوص تاریخ کی نصابی کتابوں میں ان کو درست کیا جانا چاہیے۔"
Published: undefined
کمیٹی نے ہندو مذہبی کتابوں مثلاً وید، گیتا اور رامائن وغیرہ میں درج قدیم علوم اور معلومات کو بھی نصاب میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
Published: undefined
سہسرا بدھے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ہم اپنے نظریاتی موقف کے مطابق نصاب کو تبدیل کر رہے ہیں۔ کیا (اپوزیشن) کانگریس نے اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ایسا نہیں کیا تھا جب اس نے اپنے ووٹ بینک کی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکولوں کا نصاب تیار کرایا تھا۔"
Published: undefined
سہسرابدھے کا کہنا تھا، "ہم صحیح تاریخ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایک طویل مدت سے اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اسکول کی نصابی کتابیں بچوں کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اس لیے انہیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرتے رہنا ضروری ہے۔"
Published: undefined
مہالکشمی کہتی ہیں کہ یہ تاریخ کو مخصوص اور محدود نظریے سے پیش کرنے کی غلط کوشش ہے۔ کرناٹک میں نصابی کتابوں میں ترمیم کے ناقدین اگلے ہفتے عوامی مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ معروف ماہرین تعلیم اور مصنفین نے ایک کھلے خط میں مجوزہ تبدیلوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے سیاسی افراد کے بجائے ماہرین کے ذریعہ کیے جانے چاہییں۔
Published: undefined
مورخ نارائنی گپتا کا کہنا تھا کہ اسکول کی نصابی کتابوں میں کسی طرح کی ترمیم جامع تحقیقات کے بعد ہی کی جانی چاہیے اور اس کا مقصد تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہونا چاہیے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اسکول کے اساتذہ کے ساتھ نہ تو جامع صلاح و مشورہ کیا گیا اور نہ ہی نصابی کتابوں کی جانچ کی گئی۔ کم از کم ماہرین سے آن لائن مشورے ہی لے لیے جاتے۔ جذبات کو مجروح ہونے کا حوالہ دے کر نصابی کتابوں میں تبدیلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز