سماج

دو عورتیں، دو کہانیاں

آج میرے پاس دو عورتوں کی دو کہانیاں ہیں جن کا نتیجہ میں قارئین کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں۔ آمنہ سویرا کا بلاگ۔

دو عورتیں، دو کہانیاں
دو عورتیں، دو کہانیاں 

پہلی کہانی وجیہہ سواتی ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری خاتون کی ہے جن کے نام پر پاکستان میں بیش قیمت جائیداد تھی۔ مذکورہ خاتون سولہ اکتوبر دو ہزار اکیس کو اپنی جائیداد کے معاملات دیکھنے کے لیے اپنے نو عمر بھانجے کے ہمراہ پاکستان پہنچیں۔ اسی روز ان کے سابق شوہر رضوان حبیب نے اپنے والد اور ایک ملازم کے ساتھ مل کر انہیں اسلام آباد سے زبردستی اغواء کر لیا اور انتہائی بے دردی سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاش ایک دور دراز علاقے کے مکان میں دفن کر دی۔

Published: undefined

خاتون کی گم شُدگی کے بعد ان کے بھانجے اور بیٹے نے متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائی مگر نتیجہ صفر۔ گم شدہ کا سراغ کیا ملتا، ایف آئی آر تک نہ کٹی۔ بعد ازاں مقتولہ کے خاندان نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور معزز عدالت کے حکم پر رضوان حبیب کے خلاف ایف آئی آر درج تو ہو گئی لیکن پولیس کی ابتدائی تفتیش میں ہی اسے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکی سفارت خانہ اور ایف بی آئی نے اس معاملے کو سفارتی سطح پر نا صرف اٹھایا بل کہ تفتیش میں بھرپور مدد بھی دی۔

Published: undefined

اس کے بعد معاملہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں زیر بحث آیا جس میں مقتولہ کے وکیل نے ایف آئی آر کے اندراج اور تفتیش میں پیش آنے والی مشکلات کے متعلق کمیٹی کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد کمیٹی کے چیئرمین نے ذاتی دل چسپی لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی اور از سر نو تفتیش کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تفتیشی افسر تبدیل ہوئے، کیس دوبارہ سے کھلا اور چند ہی روز بعد ملزم نے اقرار جرم کرتے ہوئے لاش بر آمد کروا دی۔ اس سب کے بعد تو کیس کو فاسٹ ٹریک پر ہی چلنا تھا اور گذشتہ روز راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے امریکی سفارت خانے اور ایف بی آئی اہل کاروں کی موجودگی میں اس کیس کا فیصلہ سنایا جس میں مرکزی ملزم رضوان حبیب کو سزائے موت اور دیگر شریک ملزمان کو قید کی سزائیں دی گئیں۔

Published: undefined

دوسری کہانی لاہور کی رہائشی تین بچوں کی ماں نبیلہ کی ہے جسے اپنے باپ کی طرف سے ترکے میں کچھ زمین اور قریب پچیس لاکھ کا حصہ ملا تھا۔ پہلے پہل تو نبیلہ کا شوہر کار و بار کی غرض سے اس رقم کا تقاضا کرتا رہا مگر اس کے مسلسل انکار نے اسے بھڑکا دیا۔ آج سے تین سال قبل ایک صبح جب بچے اسکول میں تھے، شوہر نے بیوی پر اس بہیمانہ طریقے سے تشدد کیا کہ اس کی جان چلی گئی۔ ضابطے کی قانونی کاروائی کے بعد شوہر اور سسر کو گرفتار کیا گیا مگر کیس کے چلنے کی رفتار اور سمت وہی رہی جو وجیہہ سواتی کے معاملے میں امریکی سفارت خانے اور ایف بی آئی کی مداخلت سے پہلے تھی۔ ناقص تفتیش، عدالتی اخراجات، روز کی پیشیاں اور کچھ معاشرتی دباؤ، نبیلہ کے باپ کی ہمت بلآخر جواب دے گئی اور چند ماہ قبل ان کا انتقال ہو گیا۔ اب بیوہ ماں اور نو عمر بھائی اس مقدمے کی پیروی سے قاصر ہیں۔ سنا ہے کچھ روز سے ملزمان کے ایما پر چند با اثر افراد نے صلح کا ڈول بھی ڈال دیا ہے جو اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نبیلہ کے اہل خانہ قاتل کو معاف کر دیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ مطالبہ کوئی ایسا نا جائز بھی تو نہیں ہے۔ نظام انصاف سے نا امید لوگوں کے لیے واحد راستہ بچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر کے اپنے سینے پر تسلی کا قفل لگا لیں۔

Published: undefined

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وجیہہ سواتی پر ظلم ہوا اور یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اس کے اہل خانہ کی داد رسی کے لیے ریاست کا نظام انصاف زور دار دھکوں سے سہی مگر پوری قوت سے حرکت میں آیا، ملزم کا خاندانی اثر و رسوخ ، دولت اور طاقت بھی اسے قانون کی گرفت سے بچانے میں ناکام رہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہی ریاست اور اس کا قانون اور ادارے ، نبیلہ کے معاملے میں اس قدر بے بس کیوں ہیں؟

Published: undefined

یہ محض دو مظلوم عورتوں کی دو کہانیاں نہیں ہیں بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان خلا میں گونجتا ایک نوحہ ہے جسے سننے کو سفارت خانے، ایف بی آئی اور سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی تو کیا، کوئی تھانہ، کچہری یا عدالت موجود نہیں ہے۔

Published: undefined

جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا، ان دونوں کہانیوں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ یہ میں اپنے قارئین کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں ۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined