ایک ہفتے کے اندر یہ دوسرا موقع تھا جب جی ٹوئنٹی گروپ کے وزراء اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے قبل بنگلورو میں جی ٹوئنٹی وزرائے خزانہ کے اجلاس میں بھی کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا تھا۔ رواں برس جی ٹوئنٹی کے صدر کے طور پر بھارت نے صدارتی بیان جاری کیا۔
Published: undefined
بھارت کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "زیادہ تر ارکان نے یوکرین میں جنگ کی شدید مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ یہ جنگ بے پناہ انسانی مصائب کا سبب بن رہی ہے اور عالمی معیشت میں موجود کمزوریوں میں اضافہ کر رہی ہے۔''
Published: undefined
اجلاس کے دوران یوکرین جنگ کے معاملے پر شدید اختلافات دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف امریکہ کی قیادت میں مغرب نے اور دوسری طرف روس اور چین نے ایک دوسرے کے خلاف موقف اختیار کیے۔ گوکہ تمام ممالک اپنے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہے لیکن اہم بات یہ رہی کہ امریکہ اور بھارت دونوں نے کہا کہ اجلاس کے دستاویز کی بھاری اکثریت نے تائید کی۔
Published: undefined
اجلاس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ اجلاس میں جن امور پر غور و خوض کیا گیا ان میں سے "95 فیصد پر" اتفاق رائے تھا۔ البتہ اعلامیے کے دو پیراگراف پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ "ہر کوئی دو پیراگراف پر متفق نہیں تھا۔"
Published: undefined
جے شنکر نے کہا، "یوکرین تنازع پر اختلافات تھے جسے ہم دور نہیں کرسکے۔ ہم نے کوشش کی، لیکن ملکوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا۔" انہوں نے مزید کہا کہ بالی اعلامیے میں "ہم اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن بالی (جی ٹوئنٹی اجلاس) کے بعد کچھ واقعات ہوئے ہیں...ہم نے دوری کو پاٹنے کی کوشش کی۔"
Published: undefined
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس کے افتتاح کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں تمام ممالک سے اختلافات کو ایک طرف رکھنے اور مشترکہ بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم اجلاس میں کشیدگی کی فضا برقرار رہی اور امریکہ اور روس نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔
Published: undefined
نئی دہلی کی خواہش تھی کہ اس کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی مالیات جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے لیکن حسب توقع یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی پر بحث کا غلبہ رہا۔ اجلاس کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان مختصر ملاقات بھی رہی۔ گزشتہ جولائی کے بعد یہ دونوں کی پہلی براہ راست ملاقات تھی۔
Published: undefined
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق اس ملاقات میں بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ چاہے جتنا بھی وقت لگے واشنگٹن یوکرین کے دفاع میں اس کا ساتھ دیتا رہے گا۔
Published: undefined
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ مغربی وفود نے "جی ٹوئنٹی ایجنڈے کو تماشہ میں تبدیل کردیا، وہ معیشت میں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ماسکو پر ڈالنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مغرب کو یوکرین کو اناج کی برآمدات کی اجازت دینے کے معاہدے کو ناکام بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
Published: undefined
اجلاس کے دوران روسی وزیر خارجہ اور چینی وزیر خارجہ نے بھی باہمی ملاقات کی۔ جس کے بعد روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں دونوں ملکوں نے دوسرے ملکوں کو "بلیک میل کرنے اور دھمکیاں دینے'' پر مغربی ملکوں کی تنقید کی ہے۔
Published: undefined
بیان میں کہا گیا ہے، "دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت، بلیک میلنگ، دھمکیوں کے ذریعے یکطرفہ سوچ مسلط کرنے اور بین الاقوامی تعلقات کو جمہوری بنانے کی مخالفت کرنے کی کوششوں کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا گیا۔"
Published: undefined
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ جی 20 اجلاس روس کی "یوکرین کے خلاف بلا اشتعال اور بلاجواز جنگ اور شہری اہداف کے خلاف جان بوجھ کر تباہ کرنے کی مہم" سے متاثر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی امن اور اقتصادی استحکام کی خاطر روس سے جارحیت کی جنگ ختم کرنے کا مطالبہ جاری رکھنا چاہیے۔
Published: undefined
انہوں نے روس اور چین کا نام لے کر کہا کہ ان دونوں ملکوں کی وجہ سے ہی اختلافات دور کرنے کی بھارت کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں اور اجلاس کسی مشترکہ اعلامیہ کے بغیر ختم ہوگیا۔ بلنکن نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،"روس اور چین صرف ایسے دو ممالک تھے جنہوں نے واضح کردیا کہ وہ اعلامیے کے متن پر دستخط نہیں کریں گے۔" انہوں نے کہا کہ امریکہ جی ٹوئنٹی کے لیے بھارت کے ایجنڈے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined