سماج

کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں فرق تلاش کریں

کرناٹک کی مسکان کو حجاب پہننے سے اور مھسا کو حجاب اتارنے سے روکا گیا تھا۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ ہم معاملے کو عقیدے کا عدسہ لگا کر پردے اور بے پردگی کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں۔

کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں فرق تلاش کریں
کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں فرق تلاش کریں 

اگر انسانیت کے فصیل پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ معاملے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق اس لیے نہیں ہے کہ دونوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

Published: undefined

جہاں تک شہری کی ناک ہے، وہاں تک شہری آزاد ہے۔ ناک سے آگے دوسرے شہری کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے۔ شہری اگر اپنی ناک دوسرے شہری کے دائرے میں مارے گا تو ریاست ان دونوں کے بیچ قانون کی دیوار اٹھائے گی۔

Published: undefined

حجاب کا معاملہ کیا ہے؟ حجاب لینا اور نہ لینا ناک سے آگے کا معاملہ نہیں ہے۔ معاشرتی سطح پر حجاب کی مخالفت بھی ناک سے آگے کا معاملہ نہیں ہے۔ جس نے پہنا اپنی ذات میں پہنا، جس نے اتارا اپنی ذات میں اتارا۔ معاملہ ناک سے پیچھے پیچھے ہے تو ریاست کو چھاؤں میں بیٹھ کر پیچوان اڑانا چاہیے۔ اگر ریاست کے اخلاق تاو کھا کر شہری کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے تو یہ جبر ہو گا۔ اتارنا بھی جبر، پہنانا بھی جبر۔ اگر ریاست کے پاس اپنے قدام کے پیچھے کوئی انتظامی جواز موجود ہے تو پھر بات اور ہے۔

Published: undefined

جبر کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں مگر رد عمل ہمیشہ یکساں ہوتا ہے۔ مسکان کو طاقت کے بل بوتے پر بے حجابی پر مجبور کیا گیا تو پہلے وہ مسلم لڑکیاں سامنے آئیں، جو کہیں نہ کہیں ایسی ہی مشکل کا شکار رہ چکی تھیں۔

Published: undefined

بات آگے بڑھی تو بھارت کے سیکولر حلقے مزاحمتی نعرے بلند کرتے ہوئے مسکان کے حق میں چلے آئے۔ بات مزید آگے بڑھی تو وہ مسلمان خواتین بھی مسکان کے ساتھ کھڑی ہو گئیں، جن کے ہاں حجاب کا تصور مسکان سے بالکل مختلف تھا۔

Published: undefined

ہوتے ہوتے انڈیا کا روشن خیال میڈیا میدان میں اتر آیا۔ پروگرام کرنے والی خواتین نے مسکان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے علامتی طور پر اسکارف بھی لیا۔ جواہر لعل یونیورسٹی کے ملحد، لبرل، کمیونسٹ، قوم پرست طلبا سامنے آ گئے۔ یہاں تک کہ ہندو اور سکھ طالبات اس نعرے کے ساتھ نکل پڑیں کہ 'ہم بھی مسلمان‘ ہیں۔ یہی نعرہ پنجاب کے ہندو شہری تب لگا چکے تھے، جب ہندوستانی حکومت نے مسلم شہریوں کے گھیراؤ کے لیے قانون لاگو کیا تھا۔ بِہار کی ایک ہندو طالبہ نے مسکرا کر کہا تھا، ''اگر ریاست کی نظر میں مسلمان ہونا جرم ہے تو پھر سمجھو ہم بھی مسلمان ہی ہیں‘‘۔

Published: undefined

ایران کی مھسا ریاستی جبر کا شکار ہوئی تو پہلے ہی مرحلے میں وہ حلقہ سامنے آیا، جو ریاستی جبر کے ہاتھوں پہلے ہی جلاوطنی کی اذیت سے گزر رہا ہے۔ بات آگے بڑھی تو وہ خواتین سامنے آئیں، جو مھسا کی طرح کسی نہ کسی موقع پر ریاست کے قانونی جبر کا شکار رہ چکی ہیں۔

Published: undefined

بات مزید آگے بڑھی تو ایران کے سیکولر حلقے مونگ دلنے کے لیے جوتوں سمیت حکومت کے سینے پر چڑھ دوڑے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مھسا کے حق میں اپنے حجاب کو آنچل بنا کر وہ خواتین بھی میدان میں آگئی ہیں، جو ذاتی عقیدے میں حجاب پر یقین رکھتی ہیں۔

Published: undefined

کیا ہندوستان کی ملحد، ہندو اور سکھ خواتین مسکان کے ساتھ اس لیے کھڑی تھیں کہ انہیں حجاب میں دلچسپی تھی؟ نہیں! انہیں اس سوال میں دلچسپی تھی کہ ایک شہری سے اس کا اختیار کیوں چھینا جا رہا ہے؟ یہ اختیار ہی تھا، جو ایران کی مھساوں سے چھینا گیا ہے۔ جنہیں بے حجابی میں دلچسپی نہیں ہے، وہ مسلم خواتین مھسا کے حق میں کیوں آرہی ہیں؟

Published: undefined

کیونکہ انہیں مھساوں سے چھینے گئے اختیار میں بہت دلچسپی ہے۔ جسے چوک چوراہوں پر وہ آگ لگا رہی ہیں وہ در اصل دوپٹہ نہیں ہے۔ وہ حکم ہے، جو ان کی ذات پر ریاست نے لاگو کیا ہے۔

Published: undefined

ایک جابر نے عوام کے فیصلے کو مسترد کر کے اپنا فرمان لاگو کیا تو فہمیدہ ریاض نے اپنے سیاہ دوپٹے کو مزاحمت کا علم بناکر زبیدہ کالج کے دروازے پر لہرا دیا تھا۔ ایران کی مھسائیں ملائیت کے دستور کو آگ لگانا چاہتی ہیں تو حجاب کو تیلی دکھا دیتی ہیں۔

Published: undefined

مزاحمت کا علم اٹھانا چاہتی ہیں تو سر ننگا کر کے دوپٹہ لہرا دیتی ہیں۔ در اصل یہ وہی سجدہ ہے، جو مسلم شہریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مسیحیوں، یہودیوں اور ملحدوں نے نیو یارک کی سڑکوں پر کیا تھا۔ وہ اِک سجدہ، جو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے۔ وہ اِک سجدہ، جسے تو گراں سمجھتا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو اور قومی آواز کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined