جنوبی ایشیا میں والدین کی مرضی سے شادیاں کرنا ایک عام سی بات ہے۔ اگر ایک لڑکی کا رنگ گورا ہے تو اسے ایک 'اچھا شوہر‘ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیوںکہ والدین اکثر گورے رنگ والی لڑکیوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ ماہرین سماجیات کے مطابق یہ رویہ بھارت کے برطانوی نوآبادیاتی ماضی اور 'احساس کمتری‘ کا نتیجہ ہے۔ اب بھارتی پنجاب میں پائے جانے والے 'خوبصورتی کے معیارات‘ میں مزید ایک چیز کا اضافہ ہو گیا ہے، انگریزی زبان سیکھنے کا رواج جنون کی حد تک بڑھنے لگا ہے تاکہ 'اچھا شوہر‘ مل سکے۔
Published: undefined
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب بھر میں انٹرنیشنل انگلش لینگوئیج ٹیسٹنگ سسٹم (IELTS) کے سینکڑوں ادارے کھل چکے ہیں۔ انگریزی زبان کے اس امتحان میں اچھے نمبروں کا مطلب ہے ایک 'اچھی شادی‘۔
Published: undefined
Published: undefined
بائیس سالہ سیماپریت نے اپنی تعلیم دو برس پہلے مکمل کی تھی۔ تب سے وہ تقریباﹰ ساٹھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے امرتسر کے ایک لینگوئج سینٹر آتی ہیں تاکہ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کر سکیں۔ اسے اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے آئلٹس کے امتحان میں نو بینڈز میں سے کم از کم چھ بینڈ کا اسکور درکار ہے۔
Published: undefined
کرن ویر نے تعلیم میں کچھ خاص اچھے نہیں تھے لہذا انہوں نے اپنی تعلیم درمیان میں ہی چھوڑ دی تھی۔ کرن کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے لیکن اس کی دلچسپی کھیتی باڑی میں بھی نہیں ہے۔ اس کا مقصد اب صرف ایک ہے اور وہ ہے بھارت کو چھوڑتے ہوئے کسی مغربی ملک میں جا کر آباد ہونا۔ شادیاں کروانے والے ایک شخص نے ان دونوں کے خاندانوں سے رابطہ کیا تھا اور ان دونوں کا آپس میں رشتہ کروایا تھا تاہم ان کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی۔
Published: undefined
سیماپریت کے لیے انگریزی زبان کے امتحان میں اچھا اسکور حاصل کرنا ضروری ہے تا کہ اسے کسی مغربی ملک کا ویزا مل سکے اور وہ اپنے مستقبل کے خاوند کرن ویر کو بھی اپنے ساتھ لے جا سکے۔ اس کے عوض کرن ویر کا خاندان سیماپریت کی شادی، تعلیم اور ان دونوں کو باہر بھیجنے کے اخراجات اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
Published: undefined
ان دونوں خاندانوں کے مابین ابھی صرف زبانی کلامی معاہدہ ہوا ہے۔ ان دونوں کی باقاعدہ شادی اسی وقت ہو گی، جب کرن ویر کو ویزا مل جائے گا۔ بعض کیسز میں لڑکی کی طرف سے انگریزی زبان کا ٹیسٹ دینے سے پہلے ہی شادی بھی کر دی جاتی ہے اور کئی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر لڑکی امتحان میں فیل ہو گئی ہے اور خاوند کو ویزا دلوانے میں ناکام رہی ہے تو اسے طلاق دے دی جاتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
پنجاب کے زیادہ تر لوگ کینیڈا، برطانیہ اور امریکا جانا پسند کرتے ہیں لیکن حالیہ کچھ برسوں سے یہ ممالک اپنی ویزا پالیسی سخت بناتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شریک حیات کو ہمیشہ اسٹوڈنٹ ویزا پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور خاص طور پر اس وقت، جب اسٹوڈنٹ اپنی تعلیم صحیح طریقے سے حاصل نہ کر رہا ہو۔
Published: undefined
نیوزی لینڈ میں شریک حیات کو اس وقت ویزا دیا جاتا ہے، جب کوئی اسٹوڈنٹ لیول سات یا لیول آٹھ (لانگ ٹرم اسکیل لِسٹ) کی قابلیت، یا پھر لیول نو یا دس(ماسٹر یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری) پر پورا اترتا ہو۔ اس کے علاوہ انجنیئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے والے بھی شریک حیات کو بلا سکتے ہیں۔ پنجاب سے سفر کرنے والی زیادہ تر لڑکیاں ان معیارات پر پورا نہیں اُترتیں لہذا عام طور پر یہ شارٹ ٹرم لینگوئج یا پھر وکیشنل کورسز کے لیے ہی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا کی اس حوالے سے پالیسیاں ذرا نرم ہیں اور اسی وجہ سے یہ پنجابی نوجوانوں کی نئی پسندیدہ منزل بنتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کئی لوگوں کے خیال میں یہ جہیز کی نئی قسم ہے۔ پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اس طرح کی آئلٹس میرج سے متعلق صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن اس پریکٹس کو ختم ہونا چاہیے تاکہ خواتین کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ ایک طرح سے جہیز کی نئی قسم ہے۔‘‘ دوسری جانب انگریزی زبان کی ماہر لڑکیاں لڑکے کے خاندان سے اب یہ مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ وہ ان کے تعلیم اور سفر کے اخراجات برداشت کریں کیوں کہ وہ ان کے بیٹے کو بیرون ملک لے جا رہی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
شادی کے بعد گُرپریت سکھمان آئلٹس میں مطلوبہ چھ بینڈ حاصل نہیں کر پائی تھیں لیکن وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں کم از کم اس وجہ سے طلاق نہیں دی گئی۔ دوسری جانب بہت سی لڑکیاں اتنی خوش قسمت ثابت نہیں ہوتیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق ایسی لڑکیاں، جو معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہتی ہیں، انہیں گھریلو تشدد کے خطرے کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔
Published: undefined
پنجاب آفیشل کمیشن فار وویمن کی سربراہ منیشا گولاٹی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرے سامنے کئی ایسے کیس آئے ہیں، جن میں سسرال والوں کی طرف سے لڑکی کو باقاعدہ ہراساں کیا جاتا رہا کہ اس نے آئلٹس میں اچھے نمبر ہی لینے ہیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں، ''جب لڑکیاں مطولبہ نمبر نہیں لیتیں یا ویزے نہیں لگتے تو ان سے جہیز کی ڈیمانڈ شروع کر دی جاتی ہے۔ اس ذہنیت اور پریکٹس کے خاتمے کے لیے حکومتی مداخلت ضروری ہو چکی ہے۔ ‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز