سن 2014 میں رجب طیب ایردوآن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر کی توہین کو جرم قرار دینے والے ایک متنازع قانون کے تحت اب تک لاکھوں افراد کو سزائیں دی جاچکی ہیں، جن میں ہائی اسکول میں پڑھنے والے طلبہ سے لے کر ایک سابق مس ترکی بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
اکتوبر میں پارلیمان کے ذریعہ منظور کردہ نئے قانون کے تحت مبینہ "فیک نیوز" قرار دی جانے والی کسی خبر کے لیے نامہ نگاروں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو تین برس تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
استنبول سے سرگرم ایک آزاد نیوز پورٹل dokuz8NEWS کے چیف ایڈیٹر گوخن بسیجی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" الزامات، تفتیش اور دھمکیاں ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن گئی ہیں۔" "بہت زیادہ محتاط رہنا اور نشانہ نہ بننے کے لیے حتی الامکان کوشش کرنا آج ترکی میں، آزاد صحافیوں سمیت بیشتر صحافیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔"
Published: undefined
میڈیا قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا قانون حکام کو انٹرنیٹ کو بند کر دینے، حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں کے بارے میں جلا وطن ترک رہنما سادات پیکر کے خیالات کوعوام تک پہنچانے سے روکنے کی اجازت دیتا ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ حکومت سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کرسکتی ہے، جیسا کہ استنبول میں 13 نومبرکو ہونے والے بم حملے کے بعد اس نے کیا تھا۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے اور ترک حکام نے اس کے لیے ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
Published: undefined
ترکی میں بیشتر اخبارات اور نیوز چینل حکومت کی اتحادی جماعتوں کی ملکیت ہیں اور وہ حکومت کے ہر موقف کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن سوشل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ پر مبنی میڈیا بڑی حد تک آزاد ہیں اور یہی اردوان کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔
Published: undefined
اگلے برس ہونے والے انتخابات ایردوآن کے لیے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور کرنسی کے بحران کے درمیان ان کی حکمراں جماعت کی مقبولیت ریکارڈ کم ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
Published: undefined
ڈیجیٹل حقوق کے امور کے ماہر یمن اکدینیزکا کہنا تھا کہ یہ قانون انتخابات سے قبل اپنے استعمال کے لحاظ سے "حکام کو وسیع تر اور بلا روک ٹوک اختیارات" دیتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ "اس لیے اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اس قانون کے تحت جس پہلے شخص کی تفتیش کی گئی وہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے رہنما ہیں۔" اس نئے قانون کے تحت کمال قلیچدار اوغلو کو ترکی کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ٹوئٹر پر ایک بیان شائع کرنے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اوغلو اگلے برس ہونے والے انتخابات میں ممکنہ صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
بسیجی کہتے ہیں کہ آزاد میڈیا کو خاموش کرانے کے لیے حکومت کے پاس پہلے سے ہی بہت سارے اختیارات موجود ہیں جن میں انسداد دہشت گردی سے لے کر توہین سے متعلق قوانین شامل ہیں۔
Published: undefined
ایردوان نے تاہم نئے قانون کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے اسے فوری ضرورت قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر "بدنام کرنے کی مہم "کو "دہشت گردانہ حملے "کا سوشل نیٹ ورک قرار دیا۔ حکومت کا مزید کہنا ہے کہ یہ قانون غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے اور اس نے ایک ہفتہ وار"ڈس انفارمیشن بلیٹن" شائع کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔
Published: undefined
ہیومن رائٹس واچ کی ایما سنکلیئر ویب کا کہنا ہے کہ "حکومت سوشل میڈیا پر بے پناہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے خود کو مزید اختیارات سے لیس کررہی ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس قانون سے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے بھی کافی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔ انہیں یا تو حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مواد کو ہٹانا پڑے گا یا پھر بھاری جرمانہ ادا کرنے پڑے گا۔
Published: undefined
اس قانون پر پارلیمان میں بحث کے دوران اس کے خلاف ترک صحافیوں نے مظاہرے بھی کیے تھے۔ ترکی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ گوخان درمس کا کہنا تھا،"یہ قانون اظہار رائے کی بچی کھچی آزادی کو بھی تباہ کردے گا۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined