منیلا سے سات مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی حکومت کی طرف سے اس قانونی ترمیم پر انسانی حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اور بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف سرگرم اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اب جنوبی مشرقی ایشیا کے اس ملک میں نوجوانوں کو ریپ اور جنسی استحصال سے بچانے میں مدد ملے گی۔
Published: undefined
فلپائن کیتھولک مسیحی اکثریت والا ایک ایسا ایشیائی ملک ہے، جو دنیا کی ان ریاستوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں اب تک جنسی تعلق کے قیام کے لیے قانونی رضا مندی کے حوالے سے انتہائی کم عمر والا قانون نافذ تھا۔ اس قانون کے تحت 12 سال تک کی عمر کے مقامی لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی یہ اجازت تھی کہ اگر وہ چاہیں تو بالغ انسانوں کے ساتھ جنسی رابطے قائم کر سکتے تھے۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق یہی قانون اس امر کی وجہ بھی تھا کہ فلپائن میں نہ صرف 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے لڑکیاں کسی بھی بالغ انسان سے جسمانی تعلق قائم کر سکتے تھے اور اسی لیے اس ملک میں بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی مقاصد کے لیے سیاحت کا رجحان بھی واضح تھا۔
Published: undefined
منیلا حکومت نے جس قانون میں ترمیم کی ہے اور جس پر ملکی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے جمعہ چار مارچ کو دستخط بھی کر دیے تھے، اس کا اعلان آج پیر سات مارچ کو کیا گیا۔ اس ترمیم شدہ قانون کے مطابق اب 16 برس سے کم عمر کے کسی بھی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا سنگین جرم ہو گا اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 40 برس تک قید ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
اسی قانونی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے ٹین ایجر جوڑوں کو آئندہ بھی استثناء حاصل رہے گا، جن کے مابین جنسی تعلق باہمی رضا مندی سے قائم ہوا ہو اور جن کے درمیان عمر کا فرق تین سال سے زیادہ نہ ہو۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کی فلپائن شاخ کی بچوں کے تحفظ سے متعلقہ امور کی ماہر مارگریٹا آردیویلا کا کہنا ہے، ''اس ترمیم شدہ قانون کے ساتھ اب ہمارے ملک میں بچوں کا جنسی جرائم اور جنسی تشدد سے تحفظ آسان ہو جائے گا، چاہے ایسا کوئی بھی تعلق آن لائن رابطوں سے شروع ہوا ہو یا بالمشافہ ملاقات سے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ فلپائن میں ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ مؤثر طور پر یہ طے کر دیا گیا ہے کہ کس نوعیت کا جنسی تعلق کن حالات میں قانوناﹰ کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کا ریپ تصور کیا جائے گا۔
Published: undefined
منیلا حکومت نے جس ملکی قانون میں ترمیم کی ہے، وہ 1930ء سے نافذ چلا آ رہا تھا۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیمیں طویل عرصے سے یہ کہتی چلی آ رہی تھیں کہ جنسی تعلق کے لیے رضا مندی کی 12 سال کی کم سے کم عمر کسی بھی طور قابل فہم یا قابل قبول نہیں تھی۔
Published: undefined
ماضی میں 12 سال کی عمر کی یہ حد اس لیے بھی تنقید کی زد میں تھی کہ ریپ یا جنسی استحصال کے نتیجے میں حاملہ ہو جانے والی لڑکیوں کو سماجی دباؤ کے باعث اکثر اسقاط حمل بھی نہیں کروانے دیا جاتا تھا، جس کا ایک اہم سبب ملک کی اکثریتی آبادی کے کیتھولک مسیحی عقائد بھی تھے۔ ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اس قانونی ترمیم کی منظوری گزشتہ سال دسمبر میں ہی دے دی تھی۔
Published: undefined
فلپائن کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس ملک کی آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہے اور عالمی سطح یہ ملک بچوں سے آن لائن سیکس کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ وہاں بچوں کا ریپ اور بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات بھی عام ہیں۔
Published: undefined
اس ملک میں بچوں کا جنسی استحصال اتنا زیادہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہاں ہر روز 10 سے لے کر 19 برس تک کی عمر کی تقریباﹰ 500 لڑکیاں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
Published: undefined
ملکی حکومت کے تعاون سے یونیسیف کی طرف سے 2015ء میں مکمل کیے گئے ایک ملک گیر مطالعے سے پتہ چلا تھا کہ فلپائن میں 13 سے لے کر 17 برس تک کی عمر کے ہر پانچویں بچے کو جنسی تشدد کا سامنا رہا تھا اور ہر 25 بچوں میں سے ایک کو بچپن ہی میں ریپ بھی کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined