مکالمہ اس وقت، وقت کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے مکالمے کی ضرورت ہے، جس سے ہمارے معاشرے میں مختلف لوگوں کی موجودگی اور ان کا نقطہ نظر پر امن طریقے سے سامنے آئے۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد مختلف لوگوں کے درمیان راہ ہموار کرنا ہے تاکہ وہ اپنا مدعا بنا جھجکے بیان کر سکیں۔ حل طلب پیچیدہ مسائل حل ہوسکیں، ایک دوسرے کی ترجیحات اور ضروریات کو سمجھا جا سکے۔
Published: undefined
اس تیز رفتار ترقی کے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ علم کا فہم بہت کم ہے جبکہ برقی رابطوں اور پلیٹ فارمز کی وجہ سے ہر قسم کی معلومات بے بہا ہیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی چیز پڑھ رہا ہے، لکھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھ رہا ہے اور اپنی بات پر اڑا ہے کہ اسے ہی درست سمجھاجائے۔ ایسے میں تنازعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مکالمہ کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کے بنیادی اصول اپنائے جائیں۔ مکالمے کو بحث پر یہ سبقت حاصل ہےکہ دوسرے کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، جس سے حل طلب مسائل حتمی حل کی جانب جاتے ہیں، جبکہ موجودہ دور میں، جو بحث کا انداز عام ہو رہا ہے، وہ مسائل کے حل کی جانب تو نہیں لے کے جاتا بلکہ اس سے تنازعات میں شدت آ جاتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنی جائے اور برداشت کی جائے۔ مکالمے کے الفاظ کسی کی سمع خراشی کا سبب نہ بنیں بلکہ بات بہترین طریقے سے پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔
Published: undefined
بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اسکول کے طلبا کو ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا سکھایا جانا چاہیے کیونکہ یہی طلبا کل میدان عمل میں آئیں گے اور اگر ان کو مکالمے سے مسائل حل کرنے کی تربیت ملی ہو گی تو متشدد معاشرے کی جانب جانے سے بچ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم جتنے بھی رشتوں سے جڑے ہیں، ان سب کی باتیں دل میں رکھنے کی بجائے ان سے بات کر کے یعنی مکالمے کے ذریعے ان رنجشوں کو حل کر لینا چاہیے۔
Published: undefined
ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی سے رنجش ہے تو دو یا تین افراد، جو ہم خیال ہوتے ہیں، مخاطب پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس کو نہ بات کرنے کا موقع دیتے ہیں اور نہ ہی مکالمے کی جانب جاتے ہیں۔ نتیجہ وہی کہ تنازعات بڑھتے ہیں اور بہت سی کہنے والی باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔ مکالمے کو اس کی نرمی کو زندگی میں شامل کریں تاکہ زندگی پر سکون ہو۔
Published: undefined
عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ مکالمے صرف فلموں اور ڈراموں میں ہی اچھے لگتے ہیں مگر ان کا حقیقی زندگی میں بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ہماری عمومی گفتگو بھی ہمارے اظہار خیال کے لیے بہترین ہوتی ہے مگر یہی مکالمے اگر جذبات سے بھرپور ہوں تو ہمارے احساسات کو مؤثر انداز میں بیان کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
Published: undefined
لیکن حقیقی زندگی میں مکالمے کے فقرے مختصر اور پر تاثیر ہوتے ہیں، اس لیے سامع پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں مکالمے یا ڈائیلاگ کو بھی حقیقی ہونا چاہیے مثلاً محبت کے اظہار کے لیے دودھ کی نہریں کھود دینے کا دعویٰ کرنا قطعی غیر حقیقی ہے۔
Published: undefined
اگر دیکھا جائے تو مکالمے کی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم اپنے مقام وقت اور حالات کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ مکالمے کسی کا عزم و ہمت بڑھانے کے لیے بولے جاتے ہیں جبکہ کچھ مکالمے کسی کے ہمت و حوصلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ مکالمے مد مقابل کو یہ بتا نے کے لیے ہوتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہم ابھی بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں، وہیں کچھ مکالمے کسی کے مضبوط ارادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کے کام بھی آتے ہیں۔
Published: undefined
مکالمے منفی اور مثبت پہلو دونوں رکھتے ہیں۔ ان سے آپ کسی کے گرتے حوصلے کو سنبھال بھی سکتے ہیں اور ان میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں اور اسی سے آپ کسی کے بھی دل میں اپنے خلاف غصہ، اشتعال اور نفرت پیدا کر سکتے ہیں۔ چونکہ اچھائی اور برائی ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ اس لیے مکالمے کے لیے مناسب انداز اپنانا چاہیے اور الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ حساس اور نازک مزاج لوگ الفاظ کا با آسانی شکار ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
اچھے مکالمے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، جو ہمیں بات کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھنے چاہیے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جس سے ہم بات کر رہے ہوں یا جس تک ہم نے اپنا مدعا پہنچانا ہو، اس کے مقام اور مرتبے کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے۔ زیادہ تر مکالمے اس لیے منفی جانب چلے جاتے ہیں کہ ہم مخاطب کو اس کا جائز رتبہ دینے سے انکاری ہوتے ہیں یا مناسب الفاظ کا انتخاب نہیں کرتے۔
Published: undefined
اور یہی الفاظ کا انتخاب دوسرا اہم پہلو ہے، جو مکالمے کے دوران مدنظر رکھنا چاہیے۔ مکالمے کی زبان شستہ، شگفتہ اور واضح ہونی چاہیے۔ تہذیب اور اخلاق سے گرا ہوا کوئی لفظ نہیں بولا جانا چاہیے جبکہ ایک ہی بات بار بار دہرانا جھگڑے کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
Published: undefined
اگر آپ کسی کو اپنی کسی بات کے لیے قائل کرنا چاہ رہے ہیں تو بات مدلل اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کریں تاکہ اس میں تاثیر پیدا ہو اور سننے والا نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی پوری بات سنے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined