پاکستان میں آزادی صحافت کی جنگ لڑنے والے صحافی اور کارکن الزام عائد کرتے ہیں کہ فوج اور ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ کوئی تنقیدی مواد ہر گز شائع یا نشر نہ کریں۔ دوسری جانب پاکستان کی نئی حکومت ایڈورٹائزنگ بجٹ میں کٹوتیاں کر رہی ہے، جن سے نجی اخبارات اور ٹی وی اسٹیشنوں کا بنیادی ذریعہ آمدنی سکڑتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
ماضی میں کئی فوجی ادوار دیکھنے والے صحافی غازی صلاح الدین کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہون نے موجودہ سنسرشپ سے بدتر سنسرشپ کبھی نہیں دیکھی، ’’آج ہم یہ ہی نہیں جانتے کہ انہیں (فوج کو) کیا برا لگے گا۔ آج ہمیں ’سیلف سنسرشپ‘ سے گزرنا پڑ رہا ہے اور یہ بدترین سنسرشپ ہوتی ہے کیوں کہ یہ خوف کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
پاکستانی حکام سوشل میڈیا کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، ٹوئٹر کو کئی تنقیدی اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے جبکہ فیس بک سے بھی متعدد پیج ہٹا دینے کی درخواستیں کی گئی ہیں۔ ایسا سب کچھ نفرت کو ہوا دینے، فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے اور توہین مذہب کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
پاکستانی فوج کی جانب سے سکیورٹی اداروں اور عدلیہ کے ناقد مطیع اللہ جان پر ’ریاست مخالف‘ صحافی ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ان کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اپنا کنٹرول نافذ کرنے کی ایک منظم کوشش ہے، جو نئی منتخب جمہوری حکومت کے نام پر کی جا رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
پاکستانی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت آزادی صحافت کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق صرف تشدد کو ہوا دینے والے اقدامات کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ پاکستان نے پرتشدد مظاہروں اور آسیہ بی بی کے قتل کی دھمکیوں کے بعد سخت گیر مذہبی تنظیم تحریک لبیک کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔
Published: undefined
فواد چوہدری کا کہنا تھا، ’’پاکستانی میڈیا جہاں تک ممکن ہے، آزاد ہے۔ یہ طاقت ور میڈیا اپنی مرضی سے حکومت، ایجنسیوں اور فوج پر تنقید بھی کرتا ہے۔ صرف نفرت پر مبنی اقدامات ایسا پہلو ہے، جہاں ہم دخل اندازی کرتے ہیں۔ ‘‘
Published: undefined
لیکن پاکستانی صحافیوں کے خیال میں یہ دخل اندازی اس سے بھی کہیں آگے جاتی ہے اور صورتحال جولائی کے انتخابات کے بعد سے بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کی کوریج کے حوالے سے خاص طور پر حساس ہے۔ وائس آف امریکا کی ویب سائٹ پر پابندی بھی اس تحریک کی کوریج کرنے کی بنیاد پر لگائی گئی۔ یہ تحریک قبائلی علاقوں میں مسلح فوجی کارروائیوں کی ناقد ہے۔
Published: undefined
اس تحریک کے بانی ارکان میں سے ایک محسن داوڑ کا کہنا تھا، ’’ہمیں پہلے دن سے ہی میڈیا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔ اس ملک میں فوج کی طاقت پر سوال نہیں کیا جا سکتا اور پی ٹی ایم نے یہی سوال اٹھایا ہے۔‘‘ محسن داوڑ کے مطابق ان کے بیانات کو اخبارات میں جگہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے، ان کی پریس کانفرنس تک کو کوریج نہیں دی جاتی۔
Published: undefined
فواد چوہدری کا اس کے برعکس کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کی کوریج کو محدود اس لیے کیا گیا کیوں کہ ’ہم نے اس علاقے میں ایک جنگ لڑی ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اب وہاں عوام کو بسانے کا عمل جاری ہے اور نفرت کو ہوا دینے والے بیانیے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں اس وقت 89 نجی ٹی وی چینل ہیں اور حکومتی اشتہارات میں کمی کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ کے دوران یہ ادارے اپنے سینکڑوں کارکنوں کو فارغ کر چکے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق چند ماہ پہلے تک حکومت ساٹھ سیکنڈ کے ایک سپاٹ کے لیے ڈھائی ہزار امریکی ڈالر کے برابر تک رقم فراہم ادا کرتی تھی اور اب یہ رقم کم کرتے ہوئے چار سو سے پانچ سو ڈالر تک کے برابر کر دی گئی ہے۔
Published: undefined
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ایشیا کوآرڈینیٹر سٹیون بٹلر کہتے ہیں، ’’حکومتی آمدنی پر انحصار کرنا آزادی صحافت کے لیے کوئی صحت بخش ماڈل نہیں ہے۔ اچانک کٹوتیوں سے میڈیا ادارے شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے بزنس ماڈل کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا۔‘‘
Published: undefined
فواد چوہدری کا سرکاری اشتہارات کے نئے حکومتی نرخوں کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابقہ حکومتیں مارکیٹ سے زیادہ پیسے دے رہی تھیں اور اس کے عوض انہیں مثبت کوریج فراہم کی جاتی تھی، ’’گزشتہ حکومت نے ٹیلی وژن اشتہارات کو بطور رشوت استعمال کیا۔‘‘
Published: undefined
ا ا / م م ( اے پی)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز