سماج

اتراکھنڈ میں مسلمانوں سے دکانیں خالی کرنے کا مطالبہ

اتراکھنڈ کے مذہبی بنیادوں پر تناؤ کا شکار ضلع اترکاشی میں ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسلم دکانداروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے ان سے پندرہ جون تک اپنی دکانیں خالی کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت: اتراکھنڈ میں مسلمانوں سے دکانیں خالی کرنے کا مطالبہ
بھارت: اتراکھنڈ میں مسلمانوں سے دکانیں خالی کرنے کا مطالبہ 

ضلع اترکاشی میں ایک ہندو لڑکی کے اغوا کی مبینہ کوشش کے واقعے کے بعد سے اس علاقے میں فرقہ وارانہ تناؤ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور پولیس الرٹ پر ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دکانیں خالی کر دینے کی دھمکی والے پوسٹر چپکانے والوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹر ہٹا دیا گیا ہے اور معاملے کی چھان بین جاری رہی ہے۔

Published: undefined

اس دوران سماجی انصاف کے لیے سرگرم 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر کو ایک میمورنڈم بھیجا ہے، جس میں اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف 'نفرت آمیز‘ مہم میں ریاستی حکومت کے مبینہ کردار کی مذمت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

Published: undefined

معاملہ ہے کیا؟

اتراکھنڈ صوبے میں ضلع اترکاشی کے پورولا قصبے کی مرکزی مارکیٹ میں گزشتہ دنوں مسلم تاجروں کی دکانوں پر دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں نظرآئے۔ 'دیو بھومی رکشا ابھیان‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے لگائے گئے ان پوسٹروں پر لکھا تھا، ''لو جہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ 15جون 2023ء کو ہونے والی مہا پنچایت سے پہلے اپنی دکانیں خالی کر دیں۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر فیصلہ وقت کرے گا۔‘‘

Published: undefined

ہندو شدت پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے رہنما ویریندر رانا کا کہنا تھا، ''مقامی ہندو چاہتے ہیں کہ امن اور سماجی خیر سگالی برقرار رکھنے کے لیے ایک مخصوص فرقے کے لوگ شہر چھوڑ دیں۔ وہ یہاں تجارت کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اب ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ اس مارکیٹ میں تقریباً 700 دکانیں ہیں، جن میں سے لگ بھگ 40 مسلمانوں کی ہیں۔ اس واقعے سے دو روز قبل بھی دائیں بازو کی جماعتوں سے مبینہ تعلق رکھنے والے افراد نے مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے کیے تھے۔

Published: undefined

مسلمانوں میں خوف

دھمکی آمیز پوسٹروں کے بعد سے علاقے کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول ہے۔ مسلم تاجروں نے پولیس اور انتظامیہ سے سکیورٹی فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شر پسندوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اترکاشی ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ارپن یدوونشی نے بتایا کہ پولیس فورس الرٹ پر ہے اور علاقے میں رات کے گشت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

Published: undefined

اسی دوران سماجی کارکن تیستا سیتلواد کی 'سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس‘ نامی تنظیم سمیت 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر دروپدی مرمو کو ایک خط لکھ کر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوراً ٹھوس انتظامات کیے جانے کی اپیل کی ہے۔

Published: undefined

ان تنظیموں نے ریاستی وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے کردار اور رویے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں 'لو جہاد‘ کے حوالے سے ان کے بیانات کا ذکر بھی کیا ہے۔ دھامی نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''ریاستی حکومت لو جہاد سے متعلق سختی سے تیار ہے اور دیو بھومی (دیوتاؤں کی سرزمین) پر اس طرح کی حرکتیں نہیں ہونے دی جائیں گی۔‘‘

Published: undefined

’لو جہاد‘ مسلمانوں کے خلاف بیانیہ

بھارتی حکومت پارلیمان میں اور عدالتیں اپنے احکامات میں بھارت میں 'لو جہاد‘ سے انکار کرتی رہی ہیں لیکن سن 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف اسے ایک بیانیے کے طورپر استعمال کر رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو بہلا پھسلا کر شادیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں مذہب تبدیل کروا کر مسلمان بنا لیتے ہیں۔

Published: undefined

بھارتی آئین ملکی شہریوں کو کسی بھی مذہب کو ماننے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ لیکن سن 2014 کے بعد سے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومتوں والی چھ ریاستوں سمیت کم از کم آٹھ ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور ہو چکے ہیں۔

Published: undefined

مہاراشٹر حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر شادی کے مقصد سے مذہب تبدیل کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے اور بین المذاہبی شادیوں کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

اترکاشی میں ہوا کیا تھا؟

بتایا جاتا ہے کہ 26 مئی کو ایک مقامی دکاندار 24 سالہ عبید خان اور اس کے ساتھی موٹر سائیکل میکنک جتیندر سونی نے علاقے سے ایک نابالغ ہندو لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کی کوشش کی تھی مگر مقامی لوگوں نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ پولیس نے دونوں نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے خصوصی قانون 'پوسکو‘ کے تحت انہیں جیل بھیج دیا تھا۔

Published: undefined

لیکن اس گرفتاری کے باوجود ماحول پرسکون نہ ہوا۔ ہندو شدت پسند تنظیموں نے مظاہرے کیے اور علاقے میں مسلم خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ چند روز قبل شہر میں مسلم دکانداروں کی دکانوں پر پوسٹر چسپاں کر کے انہیں دھمکیاں دیتے ہوئے علاقہ چھوڑ دینے کے لیے بھی کہا گیا۔

Published: undefined

کانگریس کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''یہ انتہائی خوف ناک ہے۔ ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں۔ ہم نے جس بھارت کی تعمیر کی ہے، اس پر گاندھی جی بھی شرمندہ ہوں گے۔‘‘ خیال رہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کے رہنما اور بلدیہ کے چیئر پرسن یشپال راوت کو ہندو شدت پسندوں کی طرف سے 'سخت نتائج‘ کی دھمکیوں کے بعد 28 مئی کو اپنی بیٹی کی ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی منسوخ کرنا پڑی تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined