بھارتی دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں مقامی حکام نے محمد ادریس کی گوشت کی دکان بند کرادی اور دکان کی چابیاں اپنے قبضے میں کرلیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اس ریاست کے حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے نو دنوں تک چلنے والے'نوراتری' کے تہوار کی وجہ سے ایسا کیا، جسے ہندووں کے متبرک تہواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
ادریس دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے گوشت کی دکان چلا رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ہریانہ میں دیگر قصابوں کی طرح انہیں بھی ہندووں کے تہواروں اور ہر منگل کو، جسے ہندو متبرک دن سمجھتے ہیں، اپنی دکان بند کرنی پڑتی ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان پر جرمانہ عائد یا ان کی دکان کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو قوم پرست ہجوم کی طرف سے حملے کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔ گوشت کی یہ دکان ہی پانچ افراد پر مشتمل ادریس کے کنبے کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"میں نے ہجوم کے خوف سے اپنی دکان بند کردی ہے۔ وہ لاٹھیاں لے کر آتے ہیں اور گوشت فروخت کرنے والوں کو بلا روک ٹوک پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر ہم پولیس کو اطلا ع دیں تب بھی ہمیں معلوم ہے کہ ہماری بات سننے والا کوئی نہیں ہے۔"
Published: undefined
ادریس ماہانہ 130 ڈالر کے قریب کما لیتے تھے لیکن نوراتری کے دنوں میں دکان بند رکھنے کا مطلب ہے کہ ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً نصف رہ جائے گی اور جبری بندش کی وجہ سے گوشت بھی ضائع ہو رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ادریس کے داماد یوسف قریشی پر گائے کے نام نہاد محافظوں کے ایک گروپ نے اس وقت حملہ کردیا، جب وہ ہریانہ کے ماروتی کنج علاقے میں کتوں کے ایک فارم کے لیے گوشت لے کر جا رہے تھے۔ ہندو شدت پسندوں نے انہیں بری طرح مارا پیٹا اور ان کا دایاں ہاتھ توڑ دیا۔
Published: undefined
قریشی کہتے ہیں کہ بھارت میں گوشت کے کاروبار سے وابستہ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی ہر روز داو پر لگی رہتی ہے۔ نریندر مودی کے سن 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد ملک کے مختلف حصوں اور بالخصوص شمالی بھارت میں گوشت خوروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندو سینا جیسی آر ایس ایس سے وابستہ تنظیمیں "سبزی خورقوم پرستی" کے نام پراس کام میں آگے آگے ہیں۔
Published: undefined
ادریس کی دکان سے تقریباً100کلومیٹر دور گائے کے ایک خودساختہ محافظ گروپ کے رہنما دیپک آریہ نے گزشتہ جمعے کو اپنے گروپ کے ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد مویشیوں کی تلاشی کی کارروائی شروع کی۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کی ٹیم نے آریہ اور ان کے ساتھیوں کے اس غیر قانونی گشت کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ سفر کیا۔ ان لوگوں نے اپنا کام شروع کرنے سے قبل" گائے ماتا کی جے" کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے اپنے آپ کو گروہوں میں تقسیم کیا اور پھر ہر اس گاڑی کو روک کر چیک کرنا شروع کیا، جس پر انہیں گائے لے جانے کا شبہ تھا۔ آریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دراصل یہ مسلم کمیونٹی ہے جو گائے فروخت کرتی ہے اور اسے کھاتی ہے اور اس لیے ان کا اصل ہدف ایسے لوگوں کو"رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے۔"
Published: undefined
ایک گھنٹے کی گشت کے بعد آریہ کو اپنے مخبر سے گائے لے جانے والی ایک گاڑی کے بارے میں اطلاع مل گئی۔ آریہ کی ٹیم گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنے لگی۔ جیسے ہی ٹرک وہاں پہنچا انہوں نے اسے روک لیا اور پہلے دو آدمیوں کو پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالا اور پھر ان کی پٹائی شروع کردی۔ ان میں سے ایک کو شیشے کی بوتل سے مارا گیا۔ حالانکہ دونوں افراد گڑگڑاتے رہے کہ وہ گائے ایک ڈیری فارم میں لے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
گائے کے یہ محافظ جوں جوں پرتشدد ہوتے گئے آریہ نے ڈی ڈبلیو ٹیم کی پر اس واقعے کی عکس بندی نہ کرنے پر زور دیا۔ پولیس افسران جائے وقوعہ سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر موجود تھے لیکن وہ اس تشدد کو نظر انداز کرتے ہوئے پورے واقعے سے لاتعلق نظر آئے۔ آریہ کا کہنا تھا کہ "یہ مسلمان ہیں جو ہماری گائے ماتا کوماردیتے ہیں اور کھاتے ہیں اور ہندووں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ گائے کے ذبیجہ کو روکنے کے لیے ہم اپنی جان دینے اور ان لوگوں کی جان لینے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اس مشن میں نہیں رکیں گے۔"
Published: undefined
سکیورٹی اور اسلامی امور پر لکھنے والی ایک صحافی غزالہ وہاب گائے کی مبینہ حفاظت کے اس طریقہ کار کو بھارت کی مسلم اقلیت کے خلاف ایک وسیع تر مہم کے حصے کے طور پر دیکھتی ہیں، جس کا مقصد انہیں سزا دینا اور معاشی طورپر پسماندہ بنا دینا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''پچھلے چند برسوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت نے اقلیتی برادریوں کوایک دوسرے کے خلاف کردینے، ان کے خلاف بعض اقسام کی نفرت انگیز مہم چلانے اور خود نامزد کردہ نگران گروہوں کی حوصلہ افزائی کا ایک منافع بخش طریقہ تلاش کرلیا ہے۔ان سب نے ملک میں خوف وہراس کا ایک ماحول پیدا کردیا ہے۔‘‘
Published: undefined
لیکن دائیں بازو کی جماعت ہندو سینا، جو ہندو تہواروں پر گوشت پر پابندی کی مہم چلا رہی ہے، کے مرکزی صدر وشنو گپتا ہندو تہواروں کے دوران گوشت کی فروخت اور استعمال کو ہندو ثقافت اور اقدار پر براہ راست حملے کے طورپر دیکھتے ہیں۔
Published: undefined
گپتا نے خبر دار کرتے ہوئے کہا،''مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا اور تہواروں اور مقدس دنوں میں گوشت فروخت کرنا بند کرنا ہوگا۔ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘‘
Published: undefined
بھارت میں 'سبزی خور قوم پرستی' کا عروج مسلم برادری کے خلاف تشدد میں اضافے سے منسلک ہو گیا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی گائے کی ٹرانسپورٹیشن کے سلسلے میں مختلف ریاستوں میں ہجوم کے ہاتھوں چند افراد پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
Published: undefined
ادریس جیسے افراد کے لیے جدید دور کے بھارت میں گوشت کا کاروبار کرنا ایک خطرناک پیشہ ہے۔ اپنی روزی روٹی کا کوئی دوسرا متبادل نہ ہونے پر وہ کہتے ہیں کہ انہیں بھی گائے کے مبینہ محافظوں کے ہاتھوں اپنی جان کا خطرہ ہر وقت خوف زدہ کیے رکھتا ہے کیونکہ یہ لوگ ملک کے بہت سے حصوں میں قانون نظرانداز کرتے ہوئے بلا خوف و خطرسرگرم ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز