مبینہ طور پر اس سترہ سالہ بچی پر تشدد کرتے ہوئے اس کا سر مونڈ دیا گیا تھا اور اسے مار پیٹ کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ فرانس میں سر مونڈ دینے کو پر تشدد جرم قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ان خواتین کے سر مونڈ دیے جاتے تھے، جنہوں نے نازیوں کے ساتھ تعلق قائم کر رکھے تھے۔
Published: undefined
پولیس نے بچی کے والدین، چچا اور چچی کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں انہیں عدالتی حکم نامے کے تحت بچی سے رابطہ نہ کرنے کی شرط پر رہا کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
نائب استغاثہ مارگریٹ پاریٹی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،'' بچی کے والدین، چچا اور چچی کے خلاف عدالتی کارروائی اس سال کے آخر میں شروع کی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
یہ بچی بوسنیا ہرزیگوووینا سے دو سال قبل اپنے خاندان کے ساتھ فرانس پہنچی تھی۔ یہاں کئی ماہ تک اس کا سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی لڑکے کے ساتھ میل جول رہا۔ معاملہ تب خراب ہوا جب اس لڑکی نے اس مسیحی لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ مارگریٹ پاریٹی کا کہنا ہے،'' لڑکی کے والدین کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ان کی بیٹی مسیحی لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی۔‘‘ اس بچی کے خاندان والوں نے بچی کا فون چھین لیا اور اس سے اپنے بوائے فرینڈ سے رابطہ کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ جس پر لڑکا لڑکی بھاگ گئے، جب وہ چار روز بعد واپس لوٹے تو انہیں لڑکی کے شدید ناراض والدین کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لڑکی کو الگ کمرے میں لے جا کر اس پر تشدد کیا گیا اور اس کا سر مونڈ دیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز