حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک حملہ کرنے کے بعد این بی سی کی ملکیت والے امریکی نیوز نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے تین ممتاز صحافیوں اور اینکرز مہدی حسن، علی ویلشی اور ایمن محی الدین کے شوز معطل کر دیے۔ اس اقدام کو ممکنہ طورپر مذہبی بنیادوں پرنشانہ بنائے جانے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
امریکہ سے سرگرم نیوز ویب سائٹ سیما فور کے مطابق ایم ایس این بی سی نے ہر جمعرات کو شیڈول مشہور نائٹ شو"دی مہدی حسن شو" کو نشر نہیں کیا جب کہ جمعرات اور جمعہ کو محی الدین کے شو کو اینکر کرنے کی ذمہ داری جوئے ریڈکو دے دی۔ اسی طرح سنیچر کے روز نشرہونے والے ویلشی کے شوکا اینکر بھی تبدیل کردیا گیا۔ حالانکہ ایم ایس این بی سی کی ملکیت والی کمپنی این بی سی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں "اتفاقی ہیں۔ یہ تینوں اینکرز آن ایئر نظر آرہے ہیں اور تجزیہ بھی پیش کررہے ہیں۔"
Published: undefined
تاہم ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ ان ممتاز صحافیوں کو ان کے مبینہ فلسطین نواز موقف کی وجہ سے ایم ایس این بی سی نے انہیں ذمہ داریوں سے معطل کیا ہے۔ مہدی حسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ کیے تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
Published: undefined
مہدی حسن نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ 'یہ ناانصافی اور غیر قانونی ہونے سے ہٹ کر، غزہ کے باشندوں کو مصر اور دیگر عرب ممالک میں منتقل ہونے کا مشورہ دینا ایک بنیادی نسل پرستی ہے۔ لوگو! عرب سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ کسی نے بھی شمالی آئرش کیتھولکس کو فرانس صرف اس لیے منتقل ہونے کو نہیں کہا کیونکہ وہ تمام سفید فام یورپی ہیں۔‘
Published: undefined
مہدی حسن کی ایک حالیہ پوسٹ، جس میں وہ بی بی سی ریڈیو کے ایک پریزینٹر کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اورغزہ کے باشندوں کے قتل کے لیے مشرق وسطیٰ اور اسرائیل میں تنازعات کو ہوا دینے کا الزام امریکہ پر لگا رہے ہیں، ایکس پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی۔ علی ویلشی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی آخری پوسٹ میں بتایا تھا کہ وہ اسرائیل سے نکل گئے ہیں اور وہاں کی تازہ صورتحال جاننے کے لیے ان کے ساتھیوں کی کوریج کو دیکھتے رہیے۔
Published: undefined
ایم ایس این بی سی کے اس اقدام نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس میں ممکنہ مذہبی بنیاد پر ہدف بنائے جانے کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس واقعے سے میڈیا کی اخلاقیات اور نیوز نیٹ ورک کے اینکرز کی ذاتی پسندیدگی سے قطع نظر منصفانہ اور معروضی رپورٹنگ پر بھی بحث چھڑ گئی ہے۔ عرب نیوز کے مطابق ایم ایس این بی سی کے ایک ذرائع کا کہنا تھا،" آگے کیا ہوگا اس بارے میں کافی کچھ غیر واضح ہے۔"
Published: undefined
ذرائع کا مزید کہنا تھا،"لیکن موڈ بالکل اسی طرح کا ہے جو نائن الیون کے بعد ہوا تھا۔ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اب سیاسی نظر یات سے آگے نکل چکا ہے اور ایک خاص عقیدے کے اینکرز کو نشانہ بنارہے ہیں۔"
Published: undefined
دریں اثنا امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی صحافی سارا سڈنر نے اپنے ایک بیان میں اسرائیلی دعوؤں کی تائید کرنے پر معافی مانگ لی۔ سارا سڈنر نے اسرائیلی دعوؤں کی بنیاد پر کہا تھا کہ حماس کے جنگجوؤں نے بچوں کو قتل کیا ہے۔ سارا سڈنر نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے اسرائیلی دعوؤں کے بعد بیان دیا تھا تاہم اب اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسرائیلی بچوں کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سارا سڈنر کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے گزشتہ روز کے بیان پر افسوس ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined