کوہسارِ مری میں جمعہ سات جنوری کو فجر کی ازان کا وقت ہو گیا تھا۔ کلڈنہ چوک سے تھوڑے فاصلے پر واقع جامع عثمانیہ مسجد تھی، جس کے دروازے مقفل تھے۔ باہر سینکڑوں گاڑیاں کئی فٹ برف سے ڈھکی ہوئی قطار در قطار کھڑی تھیں۔
Published: undefined
مدثر شاہ بھی انہیں گاڑیوں میں سے ایک کے باہر بیٹھے راستہ کلیئر ہو جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ سامنے خار دار تاریں تھیں جو سڑک کے کنارے تا حدِ نگاہ لگی ہوئی تھیں، جن پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ بغیر اجازت داخل ہونے والوں کو گولی مار دی جائے گی۔
Published: undefined
مدثر کے ہاتھ ٹھنڈ سے نیلے پڑنے لگے تھے۔ وہ کئی گھنٹوں سے مسافروں کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت مری کی اس درمیانی شاہراہ سے برف ہٹانے میں مصروف تھے۔ مدثر ابھی سڑک کنارے بیٹھے ہی تھے، جب ایک بوڑھی خاتون نے آکر ان سے گزارش کی کہ ان کی گاڑی میں موجود تین لاشوں کو کندھا دےکر نکالیں۔ بدلے میں وہ مدثر کو منہ مانگا معاوضہ دینے کو تیار تھیں۔
Published: undefined
یہ تھی وہ پہلی موت جو مدثر نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور ان کے مطابق اس کے بعد اموات کی یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ مدثر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگوں نے مسجد میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن داخلی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔ البتہ کچھ فاصلے پر موجود کرسچن برادری کے لوگوں کی جانب سے انہیں سردی سے بچنے کے لیے کمبل مہیا کیے گئے۔
Published: undefined
تقریباﹰچالیس گھنٹے برف باری میں پھنسے رہنے کے بعد مدثر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کے مطابق مقامی انتظامیہ کو جائے حادثہ تک پہنچنے میں 36 گھنٹے کا وقت لگا۔ اس دوران کئی اموات ہو چکی تھیں۔ مدثر کہتے ہیں کہ مری میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جو میڈیا میں بتائی جا رہی ہیں۔
Published: undefined
بہر حال سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک مری میں ہونے والی اموات کی تعداد 22 ہو چکی ہے اور ہفتہ آٹھ جنوری کو وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اس سانحے پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس واقعے پر شدید افسوس ہے۔ مری اس شدید برفباری کے لیے تیار نہیں تھا اور عوام کو علم تھا کہ موسم شدت اختیار کر سکتا ہے لیکن سیاح پھر بھی مری کا رخ کرتے رہے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں اس واقعے کے حقاق جاننے کے لیے ایک انکوئری کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا۔
Published: undefined
مری کی شاہراہ (ایکسپریس وے) کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) کے سپرد ہے اور شاہراہ کو صاف و محفوظ رکھنا این ایچ اے کا ہی کام ہے۔ وزیر مواصلات مراد سعید کے ماتحت کام کرنے والے اس ادارے کی جانب سے اب تک کوئی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
Published: undefined
محکمہ موسمیات کی جانب سے مری میں برفباری کی پیشن گوئی پانچ جنوری کو ہی کر دی گئی تھی اور حکومتی اداروں کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ مری کا موسم شدت اختیار کر سکتا ہے۔
Published: undefined
پھر مری کے داخلی راستوں پر عوام کو روکا کیوں نہیں گیا؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے اسپیشل اسسٹنٹ حسان خاور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
حسان نے مزید کہا کہ مری میں زیادہ گاڑیاں داخل ہونے کی خبر بے بنیاد ہے کیونکہ مری سے نکلنے والی گاڑیوں کے اعداد و شمار کہیں موجود نہیں صرف داخل ہونے والی گاڑیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔تاہم اس حوالے سے پنجاب حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو ہر پہلو سے اس واقعے کا جائزہ لے گی اور ایسی کوئی بھی بات سامنے آنے پر ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
Published: undefined
اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اس وقت ملک کا بیشتر حصہ اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔گزشتہ سال کے آخر میں گلگت بلتستان میں زلزلہ اس سال کے اوائل میں کراچی میں شدید بارشیں، اور بلوچستان میں ہونے والی برف باری سے تباہ کاریاں انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔
Published: undefined
اس تمام تر صورتحال میں سوال یہ ہے کہ ملکی حکومت کس حد تک ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔مری کے معاملے میں ریلیف اور ریسکیو کی ذمہ داری پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی ہیں اور شاید ریسکیو کام وقت پر شروع نہ ہونے کی وجہ سے ہی کئی قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہوا اس بات کا جواب جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے حکام سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔
Published: undefined
ماحولیاتی تحفظ کے کارکن اور وکیل رافع عالم نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں اور مری میں ہونے والا جانی نقصان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان ان شدید تبدیلیوں کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔
Published: undefined
رافع عالم نے مزید کہا کہ مری کوئی گاؤں نہیں ہے بلکہ ملکی دارالحکومت سے صرف دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے، اگر وہاں یہ حال ہے تو باقی ملک کا کیا ہو گا۔ رافع نے مزید کہا کہ ملکی تاریخ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
Published: undefined
سانحہ مری کے گھںٹوں بعد حکومتی عہدے داران نے مری پہنچنا شروع کیا۔ پنجاب حکومت کے سربراہ عثمان بزدار کو البتہ اس واقعے کے تقریباﹰ 30گھنٹے بعد دورہ کرنے کا وقت ملا مگر وہ بھی فضائی دورہ، جس میں انہوں فضا سے ہی امدادی کام کا جائزہ لیا۔
Published: undefined
جب ڈی ڈبلیو نے یہ سوال وزیر اعلٰی پنجاب کے اسپیشل اسسٹنٹ سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلی پنجاب کو مری پہنچنے میں تاخیر موسم کی وجہ سے ہوئی کیونکہ سڑکیں مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ فوری طور پر صرف فضائی دورہ ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ریسکیو کام تو وقت پر شروع ہو گیا تھا، جس میں کئی ملکی اداروں نے حصہ لیا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس سوال کے جواب میں کہ مری میں شدید خراب موسم کے پیشِ نظر آئندہ کی حکمتِ عملی کیا ہو گی تو انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلی حکومت ہے جس نے مری کے علاوہ باقی سیاحتی مقامات پر ترقیاتی کام شروع کیے ہیں تاکہ مری پر سیاحتی بوجھ کم ہو سکے۔ لیکن اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے ملک میں ادارہ سازی اور ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور امدادی کارروائیوں میں تاخیر کو مری سانحے کی بڑی وجہ قرار دے رہی ہے۔
Published: undefined
وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس ہی اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے عوام کو ونٹر ٹورام کی خوشخبری سنائی تھی اور سانحہ مری سے چند دن پہلے ہی فاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کا داخلہ خوش آئند بات ہے اور ملک میں سیاحت کو فروغ مل رہا ہے جو کہ ملکی معیشت کے لیے اہم ہے۔ لیکن لوکل انتطامیہ کے مطابق مری میں 30 ہزار گاڑیوں سے زیادہ کی پارکنگ کی گنجائش موجود ہی نہیں تو اس صورت میں مری میں برفباری کے موسم میں ٹریفک جام اچھنبے کی بات ہرگز نہیں۔
Published: undefined
مری کے مقامی رہائشی عمیر عباسی اور ان کے خاندان کے اس سیاحتی مقام پر دو بڑے ہوٹلز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مری میں پیک سیزن میں ٹریفک جام عام سی بات ہے لیکن جمعے کے روز صورتحال زیادہ خراب ہو گئی۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے کمروں اور اشیائے خوردنوش کی قیمتیں بڑھانے کی خبر میں صداقت نہیں اور اگر ایسا ہے بھی تو مری کا سب سے بڑا ہوٹل شہر کے ایم این اے صداقت علی عباسی کا ہے، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومتِ وقت مری میں بے جا مہنگائی کے مسئلے سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔
Published: undefined
عمیر کا مزید کہنا تھا کہ مری میں ہر سال ہی ایسا کوئی واقع پیش ضرور آتا ہے لیکن انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے اس پر کبھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
Published: undefined
ماحولیاتی پالیسی کے ایکسپرٹ داور بٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ مری ساںحے سے بچا جاسکتا تھا اگر حکومت بر وقت اقدامات کرتی اور ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا۔لیکن یہاں ہر ادارہ دوسرے ادارے پر الزام ڈالنے میں مصروف ہے۔
Published: undefined
داور بٹ نے مزید کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی پیشن گوئی کا کوئی مناسب طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے اور ہم اب تک بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس پر اکتفا کرتے ہیں اور ایک صوبے کی سیاحتی پولیس کو دوسرے صوبے کی حدود میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور یہی مری سانحے کی بنیادی وجہ بنا۔ جہاں اب فوج کام کر رہی ہے وہاں بروقت کارروائی کرتے ہوئے یہ فوج پہلے بھی مدد کے لیے بلائی جاسکتی تھی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز