ایک ہفتے کی کوشش کے بعد وہ اس بچے کو اپنے والدین کا پتا بتانے پر آمادہ کر پائی تاکہ وہ اسے اس کے والدین کے پاس واپس بھیج دے۔ لیکن اس بچے کو اسمگل کرنے والے افراد کو کبھی سزا نہ ملی کیوں کہ اس بچے کی اسمگلنگ کا کیس کبھی بھی پولیس کے پاس رجسٹر نہیں کیا گیا تھا۔ جے پور شہر میں کام کرنے والی شرما کا کہنا ہے،'' وہ بہت تکلیف میں تھا اور اسے مدد کی ضرورت تھی۔‘‘ جے پور شہر کی انتظامیہ نے اس سال جنوری میں شہر میں سے بچوں کی مزدوری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مہم کے ذریعے ایسے سرگرم کارکنان یا کونسلرز کو وکلاء اور پولیس کی مدد فراہم کرنا تھی تاکہ وہ بچوں کی مزدوری یا ان کی اسمگلنگ کے مقدمات کو جلد حل کرا سکیں۔
Published: undefined
شمالی بھارت ریاست بہار کے ہزاروں بچے غربت میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو جے پور اسمگل کیا جاتا ہے جہاں ان سے چوڑیوں اور کپڑوں کی فیکڑیوں میں بطور مزدور کام کرایا جاتا ہے۔ راجھستان کے دارالحکومت جے پور میں پانچ سے چودہ سالہ قریب ڈھائی لاکھ بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ سارے بھارت میں ایسے مزدور بچوں کی تعداد چوالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
Published: undefined
جے پور کی مختلف عدالتوں میں بچوں کی مزدوری سے متعلق دو سو مقدمات زیر سماعت لیکن گزشتہ دس سالوں میں کسی ایک کیس کا بھی فیصلہ نہیں سنایا گیا اور نہ مبینہ ملزم کو سزا سنائی گئی۔
Published: undefined
بھارتی ریاست بہار میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے امدادی ادارے 'ڈائریکٹ‘ کے سربراہ سریش کمار کا کہنا ہے،'' بچوں کو اسمگل کرنے والے افراد کو گرفتار کرنا بہت ہی مشکل ہے خاص طور پر جب بچے اور ان کے خاندان کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ بچوں سے مزدوری کرانا جرم ہے۔‘‘ سریش کا کہنا ہے کہ بچوں اور ان کے خاندان کو آگاہی فراہم کرنے سے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ اکثر والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بیٹے کو مارا پیٹا جاتا ہے، بھوکا رکھا جاتا ہے اور اس سے بارہ بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔
Published: undefined
اکثر بچے جنہیں پولیس بچا لیتی ہے انہیں شہر میں قائم شیلٹر ہاؤسز میں لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں بہت ہی محدود نفسیاتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ حکومت نے راجھستان پولیس اکیڈمی میں 2015ء میں ایک چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بنایا تھا تاکہ پولیس، عدلیہ اور وکلاء کو بچوں کے حقوق سے متعلق تربیت دی جا سکے۔ اس سنٹر کے سربراہ راجیو شرما کا کہنا ہے،'' پولیس نے بہت سے بچوں کو بچایا اور انہیں ان کے گھر پہنچایا لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ بچے عدالتوں میں خاموش ہو جاتے تھے اور جرائم پیشہ افراد کو سزائیں نہیں مل رہی تھیں۔‘‘ سنٹر نے معلوم کیا کہ بچے اپنے نام سے متعلق جھوٹ بولنے کے علاوہ اس شخص کا نام بتانے سے بھی گریز کرتے تھے جس نے انہیں جنسی زیادتی کا شکار بنایا ہو۔
Published: undefined
راجیو شرما کے مطابق ''اب نئے کونسلرز کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان ساڑھے چار سو بچوں کی رہنمائی کی جاسکے جن کے کیس عدالتوں میں ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ بچے بالآخر اپنے گھر جا سکیں۔ پولیس کی بھی بہتر رہنمائی ضروری ہے تاکہ وہ بہترانداز میں شکایت کا اندراج کر سکیں اور وکلاء کی بھی تربیت دی جارہی ہے تاکہ وہ عدالتوں میں کیس کی سماعت کے دوران بچوں سے درست بیان دلوا سکیں۔
Published: undefined
اگلے سال سے کونسلرز، پولیس اور وکلاء کی رہنمائی چوبیس گھنٹے فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایک خاتون کونسلر تربیت حاصل کرنے کے بعد اب بچوں کے ساتھ کام کرنے پر زیادہ خود اعتماد محسوس کرتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined