جرمنی کے کُل 16 وفاقی صوبوں میں سے 11 میں ایسے رپورٹنگ مراکز قائم ہیں، جہاں متاثرین یا سول سوسائٹی کے نمائندے ایسے واقعات کا باقاعدہ اندراج کروا سکتے ہیں جن میں نسل پرستی یا سامیت دشمنی کی بنیاد پر امتیازی رویوں کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔ ایسے واقعات کی بنیاد پر ان رپورٹنگ آفسز کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک رپورٹ منگل ستائیس جون کو جاری کی گئی۔
Published: undefined
اس رپورٹ کو ''جرمنی میں 2022ء میں سامیت دشمنی کے واقعات‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں ملک بھر میں رونما ہونے والے ایسے واقعات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں، جن میں یہودی متاثرین کو ان کے مذہب کی وجہ سے ''جسمانی، زبانی یا تحریری تشدد اور امتیازی رویوں‘‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
Published: undefined
جرمنی میں سامیت دشمنی سے متعلق معلومات اور تحقیق کے مراکز کی وفاقی تنظیم آر آئی اے ایس (RIAS) نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس رونما ہونے والے ایسے واقعات میں سے نو انتہائی نوعیت کے پرتشدد واقعات تھے۔ ان سے مراد ایسے واقعات ہیں، جن میں ممکنہ طور پر موت یا شدید جسمانی نقصان کی وجہ بننے والے حملے کیے گئے۔
Published: undefined
اس مطالعاتی رپورٹ کی شریک مصنفہ بیانکا لوئے نے کہا، ''انتہائی نوعیت کے ایسے پرتشدد واقعات صرف ان علاقوں کو ہی متاثر نہیں کرتے، جہاں یہ رونما ہوتے ہیں، ان کے اثرات ان خطوں میں بھی دیکھے جاتے ہیں جہاں ایسے واقعات رونما تو نہیں ہوتے مگر جن کی وجہ سے مقامی یہودی آبادی میں ذاتی تحفظ اور سلامتی کا احساس ماند پڑ جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جرمنی بھر میں رپورٹ کیے گئے نسل پرستانہ نوعیت کے سامیت دشمن واقعات کی مجموعی تعداد میں اس سے پہلے کے برسوں کے مقابلے میں معمولی کمی ہوئی، جس کا سبب بین الاقوامی سطح پر ان واقعات کی تعداد میں کمی تھا، جن کے پس منظر میں ایسے حملے کیے جاتے ہیں۔ مثلاﹰ2021ء میں غزہ پٹی کے علاقے میں حماس اور اسرائیلی فوج کے مابین تنازعہ کافی خونریز رہا تھا مگر 2022ء میں مجموعی طور پر اس تنازعے کی شدت کم رہی۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بھی ایسے واقعات کی رپورٹنگ قدرے متاثر ہوئی۔
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے متعدد ایسے واقعات کی چھان بین ابھی جاری ہے، جو سب سے زیادہ آبادی والے وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں رپورٹ کیے گئے اور جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان میں ممکنہ طور پر ایرانی 'اسٹیٹ ایکٹرز‘ ملوث تھے۔
Published: undefined
اس بارے میں بیانکا لوئے نے کہا، ''یہ بات تشویش ناک ہے کہ ایسے اکٹھے تین بڑے واقعات کو سماجی سطح پر زیادہ توجہ نہ ملی حالانکہ مقامی یہودی برادریوں کے لیے ایسے حملوں کے باعث خطرات اور خدشات آج بھی موجود ہیں۔‘‘
Published: undefined
آر آئی اے ایس کی امسالہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں کئی واقعات میں ایسے حملوں میں نسل پرستانہ سوچ، سامیت دشمنی اور معاشرتی سطح پر کئی طرح کے امتیازی رویوں کا امتزاج بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ مثلاﹰ کسی یہودی خاتون پر جب زبانی سامیت دشمن حملہ کیا جاتا ہے، تو ساتھ ہی اس میں نسل پرستانہ سوچ بھی واضح ہو جاتی ہے اور متعلقہ خاتون کو صنفی بنیادوں پر بھی امتیازی سلوک اور تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں امتیازی سلوک کی روک تھام اس مقصد کے لیے قائم وفاقی ادارے اے ڈی ایس کا کام ہے۔ اس کے علاوہ ایک قانون اے جی جی کے نام سے بھی موجود ہے، جو کسی بھی فرد کے خلاف نسلی، لسانی، صنفی یا مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ ملک میں کوئی بھی ایسا فرد جسے اپنے خلاف روزگار کی جگہ پر یا روزمرہ زندگی میں ایسے رویوں یا برتاؤ کا سامنا ہو، اس ادارے سے رابطہ کر سکتا ہے۔
Published: undefined
اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس اس کے اہلکاروں سے اتنے زیادہ متاثرین نے رابطہ کیا، جتنا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ 2022ء میں اس ادارے کو کُل 8,827 ایسی درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں متاثرین نے ایسے واقعات کی اطلاعات دیتے ہوئے مشورے مانگے تھے۔ یہ تعداد 2021ء کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ تھی۔
Published: undefined
جرمنی میں امتیازی رویوں کے خلاف کامیاب جدوجہد کے لیے وفاقی حکومت کی نامزد کردہ غیر جانبدار کمشنر کا نام فیردا آٹامان ہے۔ وہ ایک نئے جائزے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ''سماجی طور پر کسی معاشرے کی بلوغت کی ایک اہم نشانی یہ بھی ہے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ امتیازی برتاؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق جرمنی میں بھی اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔
Published: undefined
فیردا آٹامان کہتی ہیں کہ یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کی جانا چاہیے کہ جرمنی میں بھی لوگ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے بارے میں بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں اور جہاں ضروری ہو، اپنے لیے مدد بھی طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے زیادہ رپورٹ کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں امتیازی سلوک کے خلاف اور اس سے جڑے ہوئے موضوعات کے بارے میں شعور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined