حکومت مخالف اظہار رائے کرنے، نظریات اور خیالات رکھنے والوں کو کچلنے کے لیے نوآبادیاتی دور کے متنازع بغاوت قانون کے جواز پر متعدد حلقوں کی جانب سے برسوں سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ برس حکومت سے پوچھا تھا کہ وہ اس قانون کو منسوخ کیوں نہیں کررہی ہے جسے برطانوی حکمران مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
Published: undefined
ہفتے کے روز اس معاملے پر عدالت عظمی میں سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے بغاوت قانون اوراس کے جواز کے متعلق سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے 1962کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا پرزور دفاع کیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھاکہ یہ قانون گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ہر طرح کے امتحان میں کامیاب اترا ہے اور اس کے غلط استعمال کے واقعات اس قانون پر نظرثانی کا جواز نہیں بن سکتے۔ تاہم مرکزی حکومت نے پیر کے روز اس معاملے پر اچانک یو ٹرن لے لیا۔
Published: undefined
بھارتی وزیر قانون کرن رجیجو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے موقف میں یہ تبدیلی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر آئی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس نوآبادیاتی قانون کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تمام 'ناکارہ'قوانین کو ختم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
Published: undefined
مودی حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ پرانے قوانین پر نظرثانی اور ان کو منسوخ کرنے کا عمل جاری ہے اور حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک 1500قوانین ختم کرچکی ہے۔ مرکزی حکومت نے عدالت عظمی سے یہ اپیل بھی کی کہ بغاوت قانون پر نظر ثانی کا کام جب تک مکمل نہ ہوجائے وہ بغاوت سے متعلق کسی کیس کی سماعت نہ کرے۔ تاہم بغاوت قانون کی مخالفت کرنے والی تنظیموں اور افراد نے اسے حکومت کی طرف سے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش قرار دیا۔
Published: undefined
سول سوسائٹی اور شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس نوآبادتی قانون کا حکومتیں انتہائی غلط اور بے جااستعمال کرتی رہی ہیں اور موجودہ مودی حکومت میں اس کا استعمال غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ بی جے پی حکومت کے نظریات، پالیسی اور پروگراموں سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف اس کا اندھا دھند استعمال کیا جارہاہے، لہذا عدالت عظمی کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے متعدد عرضیوں کا نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ برس حکومت سے پوچھا تھا کہ اس نوآبادیاتی قانون کو منسوخ کرنے میں کیا قباحت ہے جس کی آڑ میں مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
Published: undefined
اس قانون کی منسوخی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں میں شامل ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے یو ٹرن اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش محض ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا" بغاوت قانون 150 برسوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ حکومت پچھلے تقریباً آٹھ برس سے اقتدار میں ہے اگر وہ کچھ کرنا چاہتی تو کرچکی ہوتی۔ چونکہ اب اسے یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ اس قانون پر سپریم کورٹ میں ایک بڑے بنچ میں غور کیا جاسکتا ہے اس لیے وہ اسے ٹالنے کی کوشش کررہی ہے۔اٹارنی جنرل نے تو کہا تھا کہ وہ دلیل دینے کے لیے تیار ہیں تو پھر انہیں دلیل دینے دیجیے۔"
Published: undefined
اپوزیشن کانگریس پارٹی نے کہا کہ مودی حکومت کو اب یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ بغاوت قانون کو جلد ہی منسوخ کردے گا۔
Published: undefined
کانگریس پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" مودی حکومت پچھلے آٹھ برسوں سے بغاوت قانون کااستعمال اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کو کچلنے، بی جے پی کے خلاف آوازکو دبانے، آرایس ایس کے خلاف آوازاٹھانے والوں کا منہ بند کردینے،کے لیے کررہی ہے۔خواہ وہ سماجی کارکن ہوں، سیاسی مخالفین ہو، صحافی ہوں، اسٹوڈنٹ لیڈر ہوں، این جی اوز ہوں یا کوئی اور، جس نے بھی اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنے کی جرات کی اس کے خلاف اس قانون کا استعمال کیا گیا۔"
Published: undefined
سرجے والا نے کہا،دیر آید درست آید کے مصداق ہی سہی اگر مودی حکومت کو اپنی آمرانہ ذہنیت کا اندازہ ہوگیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ خیال رہے کہ ماضی میں متعدد لاکمیشن حتی کہ سپریم کورٹ بھی اس قانون کے غلط استعمال کی نشاندہی کرچکے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز