بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورم میں نوجوانوں کے امور، اسپورٹس اور سیاحت کے وزیر رابرٹ روماویا روئٹے نے گزشتہ دنوں باضابطہ ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو فی کس ایک لاکھ روپے نقد انعام کے طور پر دیں گے۔
Published: undefined
آئزول مشرق حلقے کی میزورم اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے ریاستی وزیر روئٹے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مرد یا عورت کو ایک سند اور ٹرافی بھی دی جائے گی۔ انہوں نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ بچوں کی کم از کم تعداد کتنی ہونی چاہیے۔
Published: undefined
میزورم میں آبادی کا تناسب صرف 52 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2018 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبادی کا قومی اوسط 454 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی دس لاکھ اکیانوے ہزار 214 تھی۔ یہ بھارت کی دوسری سب سے کم گنجان آباد ریاست ہے۔ سب سے کم ترین گنجان آبادی والی ریاست اروناچل پردیش ہے جہاں فی مربع کلومیٹر 17 افراد آباد ہیں۔
Published: undefined
میزورم کے ریاستی وزیر کا کہنا ہے کہ ریاست میں بانجھ پن اور آبادی کی گرتی ہوئی شرح انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ روئٹے کے بقول، ”میزورم میں لوگوں کی کم تعداد کے سبب مختلف شعبوں میں ترقی حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے۔ کم آبادی میزو جیسے چھوٹے قبائل کی بقاء اور ترقی کے لیے بھی رکاوٹ اور سنگین مسئلہ ہے۔‘‘
Published: undefined
زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام کی یہ اسکیم میزورم کی پڑوسی ریاست آسام سے یکسر مختلف ہے، جہاں حکومت سرکاری ملازمتوں کے لیے دو بچہ پالیسی نافذ کررہی ہے اور حکومت فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو بچے کی شرط نافذ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
Published: undefined
آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا سرما نے گزشتہ دنوں دو بچہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کی بعض فلاحی اسکیموں کا فائدہ انہی لوگوں کو مل سکے گا جن کے صرف دو بچے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس اعلان کی یہ کہہ کر مخالفت بھی کی گئی تھی کہ سرما کے اپنے چھ بھائی بہن ہیں۔
Published: undefined
آسام نے پنچایت کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی صرف دو بچوں کی شرط عائد کر رکھی ہے۔ ادھر بی جے پی کی حکومت والی ایک اور ریاست اترپردیش میں لا کمیشن کے چیئرمین نے بھی آبادی کی وجہ سے ریاست میں بعض مسائل پیدا ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
Published: undefined
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی آبادی کے مسئلے کو ایک سیاسی موضوع کے طورپر اٹھاتی رہی ہے۔ وہ آبادی میں اضافے کے لیے خصوصی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
Published: undefined
بی جے پی کے رکن پارلیمان راکیش سنہا نے سن 2019 میں 'ٹو چائلڈ پالیسی‘ کے حوالے سے ایک پرائیویٹ ممبر بل پارلیمان میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں بلدیاتی اداروں سے لے کر غریبوں کو سستے سرکاری راشن دینے کے ساتھ دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم یہ بل منظور نہیں ہوسکا۔
Published: undefined
دہلی میں بی جے پی کے رہنما اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے چین کی طرز پر ہی بھارت میں ٹو چائلڈ پالیسی نافذ کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن مودی حکومت نے اس پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بھارت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود نے گزشتہ دسمبر میں عدالت میں دائر کردہ حلف نامے میں کہا تھا کہ بھارت میں فیملی پلاننگ کی نوعیت رضاکارانہ ہے۔
Published: undefined
بھارت نے آبادی اور ترقی کے حوالے سے سن 1994 کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں جوکہ فیملی پلاننگ میں زور زبردستی کی مخالفت کرتا ہے۔
Published: undefined
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بالخصوص بھارت میں آبادی میں اضافے کے نقصانات کے حوالے سے دیے جانے والے دلائل گمراہ کن ہیں اور جن شعبوں میں دو بچہ پالیسی نافذ ہے وہاں فائدے کے بجائے نقصانات ہورہے ہیں۔
Published: undefined
اس سلسلے میں سب سے واضح مثال پنچایت انتخابات کی ہے۔ ایک تحقیقاتی مطالعے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے لوگ خود کو امیدواری کا اہل ثابت کرنے کے لیے اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑنے لگے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دو بچہ پالیسی نافذ کردیا گیا تو بھارت میں بیٹے کی چاہت کے سبب صنفی انتخاب کا رجحان بڑھ جائے گا اور بیٹیوں کو رحم مادر میں قتل کردینے کے واقعات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ وسائل کی مساوی تقسیم اور مناسب سہولیات کے فقدان کا ہے۔
Published: undefined
بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی نئی کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اگر ایسا ہی رہا تو ان کی آبادی ہندوؤں سے بڑھ جائے گی اور وہ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔
Published: undefined
قریشی نے لکھا ہے، ”ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے، جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو 40 فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان بھارت کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں جب فیملی پلاننگ کے طریقے نہ اپنائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
Published: undefined
سابق چیف الیکشن کمشنر قریشی نے مزید لکھا ہے، ”اگر ریاستی حکومتیں سرکاری اسکیموں کا فائدہ صرف دو بچوں کے خاندان تک ہی محدود رکھنے کا منصوبہ بنارہی ہیں تو ا س سے نقصان کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوگا کیونکہ فلاحی منصوبو ں کا فائدہ نہیں ملنے سے غربت میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر تعلیم پر بھی پڑے گا۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined