بھارت کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک آئی آئی ٹی مدراس کی طالبہ فاطمہ لطیف کی مبینہ خودکشی نے ملک میں پسماندہ طبقات اور اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ مذہبی اور سماجی بنیادوں پراعلٰی تعلیمی اداروں میں بھی امتیاز ی سلوک کے مسئلہ کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) مدراس میں ایم اے ہیومینٹیز اور ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کی 19 سالہ طالبہ فاطمہ لطیف نو نومبر کو اپنے ہاسٹل میں کمرے کی چھت سے مردہ لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔ فاطمہ کافی ذہین اور اپنے کلاس کی ٹاپر تھیں۔ پولیس نے مبینہ خودکشی کو غیر فطر ی موت قرار دے کر معاملہ درج کیا ہے لیکن فاطمہ کے والد عبداللطیف کاکہنا ہے کہ فاطمہ کے موبائل فون میں جو تحریر ملی ہے اس میں ان کی بیٹی نے اپنی موت کے لیے ایک پروفیسر کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کی بیٹی نے مذکورہ پروفیسر کی طرف سے پریشان کرنے کے متعلق پہلے بھی شکایت کی تھی۔ فاطمہ نے موبائل فون میں لکھا ہے، ''میرا نام اور میری شناخت میرے لیے مسئلہ بن گیا ہے۔"
Published: undefined
Published: undefined
طلبہ کی ایک ملک گیر تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے صدر لبید شافی نے فاطمہ لطیف کی مبینہ خودکشی کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ کوئی عام خودکشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسلاموفوبیا اور ذات پات پرمبنی رویوں کے سبب ادارہ جاتی قتل کا معاملہ ہے۔ یہ اقلیتی اور پسماندہ طبقات بالخصوص مسلمانوں اور دلِتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں ہراساں کرنے کے وسیع تر منظم پیٹرن کا حصہ ہے۔" لبید شافی کا مزید کہنا تھا، ”اس ملک میں ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور نسل پرستی ایک حقیقت ہے جس کا روہت ویمولا، ڈاکٹر پائل تاڑوی، فاطمہ لطیف اور دیگر بہت سے ہونہار نوجوان طلبہ شکار ہوگئے۔"
Published: undefined
Published: undefined
فاطمہ لطیف کی خودکشی کے واقعہ سے صرف پانچ ماہ قبل مئی 2019ء میں ممبئی کے مشہور نائر اسپتال میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کی طالبہ ڈاکٹر پائل تاڑوی اپنے ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھیں۔ 26 سالہ پائل اپنے بھیل قبیلہ میں میڈیکل کی اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ خودکشی کاانتہائی قدم اٹھانے سے قبل انہوں نے والدین کے نام خط میں لکھا تھا کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھیوں اور بعض پروفیسروں سے اہانت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور یہ کہ سینئر طلبہ ٹوائلٹ سے آکر اپنے پاؤں اس کے بستر سے پونچھ دیتے تھے۔ پائل کے والدین نے کالج حکام سے اس معاملے کی تحریری شکایت کی تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہ کی گئی۔
Published: undefined
حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم روہت ویمولا کو بھی جنوری 2016ء میں ادارہ جاتی امتیازی سلوک کا شکار ہوکر موت کو گلے لگانے کے لیے مجبور کر دیا گیا تھا۔ روہت ویمولا کی خودکشی کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور یہ معاملہ سیاسی صورت اختیار کرگیا تھا۔
Published: undefined
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم ایس سی بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم نجیب احمد کا معاملہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016ء کو مشتبہ حالت میں اپنے ہاسٹل سے لاپتہ ہوگئے۔ عدالت کی سخت سرزنش کے باوجود ملک کی اعلٰی ترین تفتیشی ایجنسی سی بی آئی اور دہلی پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم آج تک ان کا پتہ نہیں لگاسکی۔ اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے ہر در پر دستک دے چکی نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس کا سوال ہے کہ ان کے بیٹے کے لاپتہ ہونے میں مبینہ طور پر ملوث حکمران بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان سے پولیس آخر پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کے سابق چیئرمین اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس، سُکھ دیو تھوراٹ کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ”مختلف تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خودکشی کے ان غیر معمولی واقعات میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اہم رول ادا کرتا ہے۔" لیکن کیا اس کا کوئی حل ہے؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر تھوراٹ کہتے ہیں، ”سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اعلٰی تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی تردید سے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ یہ درست ہے کہ خودکشی کے بعض واقعات انفرادی ہوسکتے ہیں لیکن اسے اتفاق تو نہیں کہا جاسکتا کہ خودکشی کے 25 معاملات میں سے 23 کا تعلق دلت طلبہ سے تھا۔اس لیے پالیسی سازوں کو پہلے تردید کے مرحلے سے باہر نکلنا ہوگا۔"
Published: undefined
بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 14.2فیصد ہے لیکن بھارت کے اعلی تعلیم کے محکمے کے 2014ء میں جاری کیے گئے سروے کے مطابق اعلٰی تعلیمی اداروں میں ان کی تعداد صرف 3.94 فیصد ہے۔
Published: undefined
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ہونہار طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے انہیں ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسلم فرقہ کی کوئی طالبہ تمام رکاوٹوں کو پار کر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچتی ہے تو اسے بھی ناخوشگوار حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اگر کوئی طالبہ خودکشی کرتی ہے تو یہ ایک لڑکی کی نہیں بلکہ ایک کمیونٹی کے امنگوں کی خودکشی ہوتی ہے۔ ان تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے واقعات سے مسلم لڑکیاں مستقبل میں اعلٰی تعلیم کی طرف جانے سے گھبرائیں گی۔
Published: undefined
Published: undefined
دریں اثنا فاطمہ لطیف کی خودکشی کے واقعے کی متعدد سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں نے سخت مذمت کی ہے اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ علاقائی سیاسی جماعت ایم ایم کے نے اس واقعے کی اعلٰی سطحی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے مذہبی امتیازی سلوک کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ پیپلز فرنٹ آف انڈیا نے اس واقعہ کو 'ادارہ جاتی امتیازی سلوک‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعلٰی تعلیمی اداروں کو پسماندہ طبقات کے طلبہ کے لیے قبرستان بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے کہا، ”فاطمہ لطیف کو ایک گیس چیمبر میں قتل کردیا گیا جہاں نفرت کو گیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined