جرمن شہر براؤن شوائگ سے پیر یکم نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملزم ایک جرمن شہری اور گائناکالوجی کا ایک ماہر ڈاکٹر ہے۔ عدالتی ذرائع نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو میں اس امر کی تصدیق کی کہ ملزم کے خلاف ہنی مون کے دوران اپنی بیوی کے جنسی اعضاء کی قطع برید کی سازش اور پھر اپنے مجرمانہ منصوبے پر عمل درآمد کے الزام میں باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
Published: undefined
شمالی جرمن صوبے لوئر سیکنسی کے شہر ہَیلم شٹَیڈ میں ایک مقامی عدالت کے ذرائع کے مطابق ملزم نے اپنی بیوی کے خلاف ہنی مون کے لیے کی جانے والی سیاحت کے دوران یہ حملہ ایک ہوٹل کے ایک کمرے میں عام قینچی استعمال کرتے ہوئے کیا اور اس دوران خاتون کو طبی طریقہ کار کے مطابق دوائی سنگھا کر بے ہوش بھی نہیں کیا گیا تھا۔
Published: undefined
لوئر سیکسنی میں صوبائی دفتر استغاثہ کے ذرائع نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اس جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں ملزم گائناکالوجسٹ کی نو بیاہتہ بیوی کا زخمی ہونے کی وجہ سے بہت سا خون بھی بہہ گیا۔
Published: undefined
جرمن دفتر استغاثہ کے مقامی اہلکار ہانس کرسٹیان وولٹرز نے جرمن پریس ایجنسی کو بتایا کہ متاثرہ خاتون کی عمر 31 برس ہے اور اس نے اپنے جنسی اعضاء کی قطع برید کے حوالے سے اپنے شوہر کے ارادوں کا علم ہونے کے بعد اس سے تعاون کا فیصلہ مجبوری میں اور دھمکیوں کے بعد کیا تھا۔
Published: undefined
ہانس کرسٹیان وولٹرز کے مطابق ملزم نے اپنی بیوی کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے تعاون نہ کیا تو وہ اسے طلاق دے دے گا۔ ''اس دھمکی کے بعد سماجی طور پر طلاق یافتہ ہونے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے اس خاتون نے اپنے شوہر کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔‘‘
Published: undefined
اس واقعے کے حوالے سے جرمن پراسیکیوٹرز نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے میں ملزم اور اس کی بیوی دونوں ہیں تو جرمن شہری مگر نسلی طور پر ان کا تعلق دیگر ثقافتوں سے ہے۔ حکام نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ جرمن شہریت اختیار کرنے سے قبل اس جوڑے کا تعلق کس ملک یا ممالک سے تھا۔
Published: undefined
ملزم کے خلاف مقدمہ اس کی بیوی کی شکایت پر درج کیا گیا۔ عدالتی ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ مقدمے کی سماعت کب شروع ہو گی۔ مبینہ ملزم اب تک اس بارے میں کوئی بھی باقاعدہ بیان دینے سے انکاری ہے۔
Published: undefined
دنیا کے کئی ممالک، خاص طور پر متعدد افریقی اور عرب ریاستوں میں خواتین کے جنسی اعضاء کی قطع برید ایک ایسی صدیوں پرانی روایت ہے، جس کے خاتمے کے لیے بہت سی حکومتیں اب تک باقاعدہ قانون سازی کر چکی ہیں۔
Published: undefined
اس عمل کے نتیجے میں متاثرہ خواتین اور بچیوں کے لیے عام طور پر شدید نوعیت کی طبی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور کئی واقعات میں تو یہ جسمانی قطع برید ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی طرف سے بھی عرصہ دراز سے اس مجرمانہ سماجی روایت کے خاتمے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں بھیکسی بچی یا عورت کے جنسی اعضاء کی قطع برید، جسے female genital mutilation یا FGM کہا جاتا ہے، ایک باقاعدہ جرم ہے اور اس کی سزا کم از کم ایک سال سے لے کر کئی برس تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined