جرمنی یورپ کے مشہور طبی سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ہڈیوں کے علاج کے ماہر جرمن آرتھوپیڈک سرجن، ماہرین امراض قلب اور عمومی سرجری کے جرمن ماہرین بین الاقوامی طبی سیاحوں میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
Published: undefined
بون رائن زیگ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں میڈیکل ٹورزم ریسرچ یونٹ کی سربراہ مریم آصفی کہتی ہیں، ''کم پائی جانے والی بیماریوں کے مریض بہترین ممکنہ علاج چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ جرمنی آنے پر ہی غور کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
وہ کہتی ہیں، ''جرمنی میں علاج کرانا ایک طرح سے باعث فخر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کرنسی کے استحکام جیسے معاشی اور مالیاتی عوامل بھی غیر ملکیوں کے طبی مقاصد کے لیے جرمنی آنے کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
طبی سیاحت برسوں سے بڑھ رہی ہے، جس کی ایک وجہ عالمگیریت کی سوچ کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔ امریکہ، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی طبی سیاحوں کے لیے مقبول ترین مقامات میں شامل ہیں۔ جرمنی بھی ان ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ خاص طور سے صحت کی دیکھ بھال کے مناسب اخراجات کی وجہ سے۔ 2020 ء میں 177 مختلف ممالک سے 65 ہزار سے زیادہ غیر ملکی علاج کے لیے جرمنی آئے۔ ان میں سے زیادہ تر یورپی مہمانوں کا تعلق پولینڈ اور نیدرلینڈز سے تھا جب کہ زیادہ تر غیر یورپی مریض روس، یوکرین اور سعودی عرب سے آئے تھے۔
Published: undefined
اگرچہ جرمنی میں طبی دیکھ بھال کے شعبے کو بہترین بین الاقوامی شہرت حاصل ہے لیکن حالیہ برسوں میں غیر ملکی مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ مریم آصفی کہتی ہیں کہ طبی علاج کے لیے جرمنی آنے والے روسی سیاحوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔ 2020 ء میں روسی سیاحتی مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد کی کمی ہوئی تاہم اس کمی کو جزوی طور پر پورا کیا یورپی یونین میں شامل ریاستوں اور عرب ممالک سے علاج کے لیے جرمنی آنے والے سیاحوں نے۔
Published: undefined
جرمن ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یونیورسٹی کلینک فرائی برگ، جس میں خاص طور سے یورپی یونین کے باہر سے آنے والے مریضوں کے علاج کے لیے ایک خصوصی یونٹ بھی قائم ہے، میں مریضوں کے داخلے میں واضح کمی دیکھی گئی۔ وبائی امراض سے متعلق سفری پابندیاں بھی اس کی بڑی وجہ بنیں۔ 2020ء میں یونیورسٹی کلینک فرائی برگ میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی مریضوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یوکرین اور روس سے تھا جب کہ 2021 ء میں یہ تعداد گھٹ کر 800 رہ گئی۔ ان افراد میں سے بھی زیادہ تر روسی یا یوکرینی باشندے تھے۔
Published: undefined
متعدد جرمن ہسپتالوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ہی طبی سیاحت سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے جرمن شہر ڈسلڈورف میں قائم ایک ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ آمدنی کا یہ سلسلہ اب ہسپتال کے لیے خاص اہمیت کا حامل نہیں رہا۔
Published: undefined
اسی طرح کا تاثر برلن کے Vivantes ہسپتال گروپ نے بھی دیا۔ مارچ میں اس گروپ نے اپنا Vivantes انٹرنیشنل میڈیسن یونٹ بند کر دیا، جو خاص طور پر غیر ملکی مریضوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کی وجہ اس کی سروسز کی گرتی ہوئی مانگ بنی۔ اس طبی گروپ کے اراکین کا کہنا تھا کہ یہ یونٹ مالی طور پر قابل عمل نہیں رہا تھا۔
Published: undefined
2020ء میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے باہر کے ایک ہزار سے کم مریضوں نے وہاں علاج کرانے کی کوشش کی۔ اس تعداد میں 2016ء سے 2019ء تک سالانہ تقریباً بارہ سو کی کمی واقع ہوئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ جرمنی میں کووڈ انیس کی عالمگیر وبا کے اثرات کے تناظر میں اور یوکرین میں کئی ماہ سے جاری جنگ کے آئندہ بھی جاری رہنے کے پیش منظر میں جرمنی میں طبی سیاحتی شعبہ اقتصادی حوالے سے کب اور کس حد تک بحال ہو سکے گا۔
Published: undefined
اس کے باوجود آصفی پرامید ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں طبی سیاحت کی حمایت کرتی ہوں، بشمول جرمنی کی طبی سیاحت کے، خاص طور پر اقتصادی عالمگیریت کے اس دور میں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز