'امی آپ کو پتہ ہے کہ میری سہیلی کے بھائی کی شادی ہے اور اس نے سب دوستوں کو مدعو کیا ہے سوائے میرے۔‘ یہ کہنا تھا اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز( پمز) میں ایچ آئی وی اور ایڈز سے لڑتی حاملہ خواتین کی معالج ایک سینئیر ڈاکٹر کی بیٹی کا۔ ڈاکٹر مدیحہ (فرضی نام) کو اپنی بیٹی کے منہ سے اس طرح کی بات سن کر حیرت نہیں ہوئی مگر افسوس ضرور ہوا۔
Published: undefined
ڈاکٹر مدیحہ خود بھی کئی مرتبہ اس طرح کے امتیازی رویے کا سامنا کر چکی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ان کا دکھ کچھ مختلف ہے کیونکہ ان کی وجہ سے اب ان کی بیٹی کو بھی وہی سب جھیلنا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مدیحہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی متعدی بیماری کے مریضوں کے ساتھ کام کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، ''ایڈز کا شکار حاملہ خواتین کے علاج معالجے میں یہ بیماری منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہمیں ان کا آپریشن بھی کرنا پڑتا ہے، جس میں کٹ لگنے اور ٹانکے لگاتے وقت سوئی چھبنے کا امکان ہوتا ہے‘‘۔
Published: undefined
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (پمز) میں ایڈز کے مریضوں کے علاج کا سب سے بڑا مرکز قائم کیا گیا ہے، جہاں ہر سال تقریباﹰ 20 سے 25 حاملہ خواتین علاج معالجے اور زچگی کی سہولیات سے مستفید ہوتی ہیں۔ اس سینٹر میں جب مختلف ڈاکٹروں اور نرسوں سے بات چیت کی گئی تو پتا چلا کہ یہ لوگ اپنی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں صرف اور صرف اس لیے کہ یہ ایڈز کے وارڈ میں کام کرتے ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر مدیحہ کا کہنا تھا کہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ امتیازی رویہ دکھاتے ہیں شاید ان کو بیماری کا تو علم ہے مگر کسی حد تک ان کا یہ علم ادھورا ہے۔ ان کو شائد یہ پتہ نہیں ہے کہ یہ بیماری لوگوں کا علاج کرنے یا ان کو چھونے سے نہیں پھیلتی ہے اور معالج کو سب حفاظتی اقدامات کا پتہ ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے اردگرد اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگوں سے میل ملاپ خود ہی کم کردیا ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر مدیحہ کے بقول، ''میری بیٹی کی سہیلی کے بھائی کی شادی تھی اور اس کی ماں نے اسے مدعو کرنے سے منع کر دیا صرف اس لیے کہ میں ایڈز کے وارڈ میں کام کرتی ہوں۔ میری بیٹی بہت دن اداس رہی اور مجھے کہا کہ میں اپنا وارڈ تبدیل کروا لوں مگر میں نے اس کو سمجھایا کہ لوگوں کے رویوں سے گھبرا کر میں جو ایک نیکی کر رہی ہوں چھوڑ دوں؟ ایسی ایڈز سے متاثرہ خواتین پہلے ہی معاشرے کی ستائی ہوئی ہوتیں ہیں اور ان کو ہمارے پیار اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد میری بیٹی نے ضد تو چھوڑ دی مگر وہ کتنا سمجھ پائی یہ کہنا مشکل ہے؟‘‘
Published: undefined
اسی وارڈ میں کام کرنے والی ایک نرس حنا (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب بھی اسے کسی ایڈز سے متاثرہ عورت کے آپریشن میں مدد کے لیے جانا ہوتا ہے تو اس کی ماں اس کی حفاظت کے لیے خصوصی وظیفے کا اہتمام کرتی ہیں اور واپسی پر اس کے ہاتھ بازو چیک کرتی ہیں کہ کہیں کوئی کٹ یا زخم تو نہیں آیا۔
Published: undefined
اس نے اپنے دو سالہ تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسے تو ان خواتین کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا مگر ہسپتال کی زیادہ تر نرسیں اگر کسی کام کے سلسلے میں اس وارڈ میں آتی بھی ہیں تو وہاں بیٹھنے اور وقت گزارنے سے گھبراتی ہیں، ''ان کو شاید لگتا ہے کہ کرسی پر بیٹھنے سے بھی ان کو خدانخواستہ ایڈز ہو جائے گا۔‘‘
Published: undefined
حنا سے جب ان کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو انہوں نے انکار کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو نہیں پتا کہ وہ ایڈز کے مریضوں کے ساتھ کام کرتی ہیں ان کو بھی علم ہو جائے گا اور وہ اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں چاہتیں۔ ڈاکٹر عنبر کا کہنا تھا کہ اس مرض کے ساتھ سٹگما جڑا ہوا ہے جو کبھی کبھی مریض کے ساتھ ساتھ معالج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
Published: undefined
جب ان سے معاشرے کے امتیازی سلوک کے بارے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ''شکر ہے کہ مجھے اپنی فیملی کی طرف سے پورا تعاون حاصل ہے مگر ان کی طرف سے بار بار احتیاط کی ضرور تنبیہ کی جاتی ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے اپنے شعبے میں بہت سے ڈاکٹر اور طبی عملے کو تربیت اور آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ میں نے تو اپنے شعبے میں ہی امتیازی رویے کا سامنا کیا ہے۔ ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم شاید اتنے اچھے معالج نہیں اس لیے ہمیں ایڈز کے مریضوں کے وارڈ میں لگایا ہوا ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس مرض کی منتقلی کا خطرہ آپریشن تھیٹر میں بہت بڑھ جاتا ہے اس لیے وہ اور باقی طبی عملہ سب حفاظتی تدابیر کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ایک آپریشن میں نارمل آپریشن سے دو گنا زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر کے مطابق 'ایک مرتبہ آپریشن کے دوران مریضہ کو ٹانکے لگاتے ہوئے سوئی میری انگلی پر چبھ گئی تھی، خوف کی ایک لہر نے میرے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا مگر پھر میں نے ہمت کر کے آپریشن مکمل کیا اور حفاظتی دوائیوں کا 28 دن کا کورس مکمل کیا۔ ہم نیک مقصد لیے کہ کام کرتے ہیں تو اللہ بھی ہماری حفاظت فرماتا ہے اور اسی نے مجھے سوئی چھبنے کے باوجود محفوظ رکھا۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ تقریبا ایک سے ڈیڑھ ماہ قبل ان کے وارڈ میں ایک نرس کی جگہ خالی ہوئی تو ایک اور نرس کو بھرتی کیا گیا مگر وہ صرف دو ہفتے ہی کام کر پائی اور نوکری چھوڑ کر چلی گئی جس کی وجہ اس نے لوگوں کا رویہ اور اس بیماری کا خوف بتایا تھا۔
Published: undefined
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عنبر کا کہنا تھا کہایڈز کے مریضوں کے ساتھ ایک سٹگما تو جڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے علاقوں میں علاج نہیں کرواتے بلکہ قریبی شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی بیماری کے بارے میں علم نہ ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ گجرات سے ایڈز کی ایک متاثرہ حاملہ عورت ان کے پاس آئی تو طبی جانچ کے دوران وہ رونے لگی اور اس نے بتایا کہ وہ ایمرجنسی میں جب علاقے کی ایک قریبی گائناکالوجسٹ کے پاس گئی تو اس ڈاکٹر نے اسے اپنے کلینک کی کرسی پر بیٹھنے تک نہ دیا اور کھڑے کھڑے ہتک آمیز رویے سے معائنے کیے بغیر ہی ایک پرچی پر دوائی لکھ کر دے دی۔
Published: undefined
ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں، جو ایڈز کے مریضوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنے سے بھی کتراتے ہیں لیکن اگر معاشرے میں اس مرض کا علاج کرنے والے افراد کے ساتھ بھی امتیازی رویہ برتا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ ایڈز وارڈز میں مریض تو ہوں مگر وہاں ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ شاید دکھائی نہ دے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined