دنیا کی معروف تکنیکی کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی وہ جن ٹولز کی تیاری کر رہا ہے اس کا مقصد خبر نگاری میں صحافیوں کے لازمی کردار کو تبدیل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ٹولز صحافیوں کوتحقیق کرنے اور مضامین لکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
Published: undefined
گوگل نے جمعرات کو بتایا کہ وہ میڈیا کمپنیوں بالخصوص چھوٹے پبلشرز کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ایسے ٹولز کی تیاری پر کام کررہا ہے جو"صحافیوں کو خبروں کی شہ سرخیاں لکھنے یا مختلف انداز تحریر کے متبادل فراہم کرنے "میں مدد گار ہوں گے۔
Published: undefined
گوگل کی ترجمان جین سرائیڈر نے اس سلسلے میں کمپنی کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے ابتدائی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ "ہمارا مقصد صحافیوں کو ان ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اس طریقے سے استعمال کرنے کا انتخاب فراہم کرنا ہے جس سے ان کے کام اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔ جیسا کہ ہم جی میل اور گوگل ڈاکس کے طورپر لوگوں کو معاون ٹولز دستیاب کر رہے ہیں۔" انہوں نے کہا، "ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان ٹولز کا مقصد رپورٹنگ، تخلیق اور اپنے مضامین کے حقائق کی جانچ پڑتال میں صحافیوں کے بنیادی کردار کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسا کرسکتے ہیں۔"
Published: undefined
گوگل کے اس پیش رفت سے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے پلیٹ فارمز مثلاً چیٹ جی پی ٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور فوائد کے بارے میں بحث تیز ہوجانے کا امکان ہے۔ کیونکہ اس اے آئی ٹول نے انسانی تقریر کی نقل کرنے کی صلاحیت سے صارفین کو دنگ کردیا ہے لیکن اس نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، غلط معلومات اور انسانی کارکنوں کی جگہ مشینوں کے لینے کے بارے میں خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔
Published: undefined
پرنٹ ایڈورٹائزنگ کی آمدنی میں کمی کے ساتھ ہی ملازمین کی تعداد میں مسلسل کمی کرنے کی وجہ سے عالمی میڈیا انڈسٹری تباہ ہوگئی ہے۔ صرف امریکی نیوز رومز میں ہی رواں برس کے ابتدائی پانچ مہینوں کے دوران ریکارڈ 17436ملازمتیں ختم کردی گئیں۔
Published: undefined
گوگل کی جانب سے اس نئے ٹول، جسے جینیسس کا نام دیا گیا ہے،کو ڈیولپ کرنے کے متعلق سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے خبر دی۔ اس نے بتایا کہ اسے ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل کے مالک نیوز کارپ کو پیش کیا گیا ہے۔ ٹائمز کے مطابق میڈیا سے وابستہ بعض اہم افراد، جنہوں نے گوگل کی اس پیش کش کا مشاہدہ کیا ہے، انہوں نے اسے " پریشان کن" قرار دیا ہے۔
Published: undefined
تاہم کچھ میڈیا تنظیموں نے تخلیقی مصنوعی ذہانت کا استعمال شروع کردیا ہے۔ نیوز رومز عام طور پر درستگی، سرقہ اور کاپی رائٹ کے خدشات کے مدنظر خبریں جمع کرنے کے مقاصد کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
Published: undefined
خیال رہے کہ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) نے گزشتہ ہفتے مصنوعی ذہانت کی کمپنی اوپن اے آئی کے ساتھ شراکت کا اعلان کیا تھا جس سے چیٹ جی پی ٹی تخلیق کرنے والی اس کمپنی کو مصنوعی ذہانت کو زیادہ بہتر اور درست بنانے کے لیے اے پی کے 1985 کے بعد سے آرکائیوز کو استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined