سماج

مرغے ڈربوں میں، ملاں حجروں میں اور فوج بیرکوں تک ہی ہونی چاہیے

بچپن میں میری دوستی ایک نابین حافظ قرآن سے ہو گئی تھی، جن کے توسط سے میں پھر مذہبی لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تھا، جن کا ایک ہی کام ہوتا تھا کہ ہر دوسرے عقیدے والے مسلمان کو کافر قرار دیا جائے۔

کافر کہانی
کافر کہانی 

حافظ صاحب راسخ العقیدہ دیوبندی تھے لیکن وہ خود کسی سیاسی مولوی، خطیب یا پھر دوسروں کو ہر وقت کافر قرار دینے والوں سے بالکل مختلف تھے۔ یہ ایک بڑی کہانی ہے پھر کبھی سہی۔ لیکن میں نے انہی اصحاب کی صحبت میں پہلی بار مشرک اور کافر کے الفاظ سنے۔ مدرسوں اور مساجد میں کافی وقت گزارا، جہاں سے بعد میں خود بھی کافر بنا لیکن حافظ صاحب سے میری دوستی قائم رہی۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

یہ ضیا الحق کے دور سے کچھ پہلے کی بات ہے۔ پھر اچانک ایسا ہوا کہ شہر میں ’’قادیانی کافر‘‘ اور ’’قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ کرو‘‘ کے پوسٹر اور اسٹیکر لگ گئے، جن کی زد میں میرا ایک کلاس فیلو لڑکا بھی آیا، جو کہ احمدی تو نہیں تھا لیکن اس کی دوستی احمدیوں کے ساتھ تھی۔ بلکہ وہ اسکول کے بعد ایک احمدی گھڑی اور ریڈیو ساز کی دکان پر کام کرتا اور ان ہی کے ساتھ دن رات اٹھتا بیٹھتا تھا۔ زمین اس غیر احمدی آرائیں لڑکے کے خلاف اتنی تنگ کر دی گئی کہ آخرکار اسے خودکشی کرنا پڑی۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

سوشل بائیکاٹ کیا ہوتا ہے کئی دنوں بعد مجھے پھر پتہ لگ گیا، جب ایک دفعہ بطور صحافی الطاف حسین کی پریس کانفرنس کور کرنے پر سندھی صحافیوں نے میرا ڈھائی ماہ تک سوشل بائیکاٹ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے اخبارات میں الطاف حسین کی پریس کانفرنس کور کرنے کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ بہت دن ہوئے کہ میری ایک صحافی ساتھی نے الطاف حسین کا نام ’’ہڑتال حسین‘‘ رکھا تھا۔ ویسے پچھلے دنوں خادم حسین کی لٹھ بردار ہڑتالوں میں الطاف حسین لوگوں کو بہت یاد آیا۔ مجھے بھی اس طرح یاد آیا کہ وہ آج بھی پاکستان میں واحد سیاستدان ہے، جو ملاؤں اور جرنیلوں پر گرجتا برستا ہے اپنی تقریروں میں۔ اقلیتوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ اب کے بار بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایسا ہی کیا کہ آسیہ بی بی کی بریت پر ملک میں تمام لوگوں اور اداروں کو سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑے رہنے کی اپیل کی۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

کاش وفاق میں اپنے دور حکومت میں بلاول اور اس کی پارٹی اس بلاسفیمی کے قانون کا کچھ کرتے، جس کی دیگ تو ان کے نانا جی چڑہا کر گئے تھے پر اس کا ڈھکن ضیا الحق نے آکر اتارا تھا۔ لیکن اس کی آگ تو اٹھارہ سو نوے میں برصغیر پر بدیسی انگریز حاکموں نے لگآئی تھی۔ یعنی کہ بلاسفیمی یا توہین مذہب کا قانون برطانوی استعماری حکمرانوں نے متعارف کروایا تھا۔ لیکن شاذ و نادرہی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ مقصد کافر کافر کے کھیل کو مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے مابین ہوا دینا تھا۔ پھر سبھی خود ہی جج، جیوری، عالم ، فاضل، صوفی اور سالک بن بیٹھے۔ حیرت ہے کہ جناح علم دین کی سزائے موت کے خلاف پنجاب ہائیکورٹ میں وکیل بنے اور علم الدین کی پھانسی کے بعد علامہ اقبال نے کہا تھا،’’ترکھانوں کا لڑکا ہم پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا۔‘‘ یعنی کہ پڑھے لکھے علامہ خود غازی علم دین بننا چاہتے تھے۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

سلمان تاثیر کے ابا دین محمد تاثیر کے گھر سے وہ چارپائی گئی، جس پر پھانسی کے بعد علم دین کی میت رکھی گئی تھی۔ پر انہی مولویوں نے اس کے بیٹے کا ہی جنازہ پڑھ‍انے سے انکار کر دیا۔ جس جج نے سلمان تاثیر کے قاتل کو سزا سنائی، وہ ملک ہی چھوڑ گیا، پھر وہی ملک کے ٹھیکے دار بن بیٹھے، جنہوں نے ملک کے بانی کے خلاف ’کافر اعظم‘ کا فتویٰ دیا تھا۔ فتووں کی فیکٹریاں کھلتی گئیں بلکہ پاکستان سے پہلے بنیاد رکھی برطانوی حکمرانوں نے اور پاکستان بننے کے بعد آمرانہ نظام نے اپنے حق میں فتوے لے کر جڑیں پکڑیں۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کے خلاف فتویٰ لیا کہ بطور عورت وہ صدر نہیں بن سکتیں۔ بھٹو کے سوشلزم کے نعرے کے خلاف ایک سو چار مولویوں نے کفر کا فتویٰ دیا۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

پھر فوجی آمر ضیا الحق نے تو بھٹو خواتین کو سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش میں ملک میں عورتوں کے خلاف ’امتیازی اور ظالمانہ قوانین‘ متعارف کروائے۔ ضیا کے دور حکومت میں ساہیوال کی نابینا عورت صفیہ بی بی کو کوڑے مارے گئے۔ کراچی میں ایک سندھی جج نے شاہدہ پروین کو سزائے موت بذریعہ سنگسار ی سنائی۔ اب بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کسی نے اسی پر اعتراض و احتجاج کیا کہ قندیل بلوچ کے قاتل بھائی کو کیسے بری کیا گیا؟ یا یہ کہ قندیل کو کس کی شہہ پر قتل کیا گیا؟ جس وکیل نے آسیہ بی بی کا دفاع کیا وہ بھی ملک چھوڑ کر مغربی دنیا میں جان کی پناہ کی اپیلیں کرتا پھرتا ہے۔ سارا ملک سلمان حیدر کی نظم بنا ہوا ہے کہ تو بھی کافر میں بھی کافر۔ سب خرابی تب سے شروع ہوئی، جب سبھی نے خود ہی جج، جیوری اور مفتی بننا شروع کیا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مرغے اپنے ڈربوں میں، ملاں اپنے حجروں میں اور فوج بیرکوں تک ہی ہونی چاہیے۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 11 Nov 2018, 7:03 AM IST