افغانستان پر سخت گیر اسلام پسند طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً دو ماہ گزر جانے کے باوجود نئی حکومت نے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں میں واپس جانے سے روک رکھا ہے جبکہ لڑکوں کو کلاس میں واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔
Published: undefined
طالبان نے حالانکہ دعویٰ کیاہے کہ وہ سکیورٹی کو یقینی بنانے اور اسلامی قوانین کی تشریح کے تحت طلبہ اور طالبات کے درمیان سخت علیحدگی کرنے کے بعد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول واپس آنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم بیشتر لوگوں کو طالبان کی اس یقین دہانی پر شبہ ہے۔
Published: undefined
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی اور افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد کارکنوں نے ایک کھلے خط میں کہا ہے،”طالبان حکام کے نام... لڑکیوں کی تعلیم پر جاری پابندی کو ختم کیا جائے اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو فوراً کھولا جائے۔"
Published: undefined
انہوں نے مسلم ملکوں کے رہنماوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکمرانوں پر یہ واضح کریں کہ”مذہب لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کا جواز نہیں فراہم کرتا۔"
Published: undefined
اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شہر زاد اکبر بھی شامل ہیں جو امریکی حمایت یافتہ سابقہ اشرف غنی حکومت میں افغان انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ تھے۔ طالبان حکومت سے اپیل کرنے والوں کا کہنا ہے،”افغانستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔"
Published: undefined
خط پر دستخط کرنے والوں نے جی 20 ممالک کے رہنماوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان بچوں کے تعلیمی منصوبے کے لیے فوراً مالی امداد فراہم کریں۔ اس خط کے ساتھ ہی ایک درخواست بھی پیش کی گئی ہے جس پر پیر کے روز تک چھ لاکھ 40 ہزار سے زائد دستخط موصول ہوچکے تھے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ تعلیم کے لیے سرگرم پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے سن 2012 میں وادی سوات میں اس وقت گولی مار کر زخمی کردیا تھا جب وہ اسکول بس سے اپنے گھر لوٹ رہی تھیں۔
Published: undefined
ملالہ اب 24 سال کی ہیں اور وہ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کے غیر منافع بخش ملالہ فنڈ نے افغانستان میں 20 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
Published: undefined
دریں اثنا افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،”جہاں تک میری سمجھ اور معلومات ہے، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بہت جلد کھول دیا جائے گا اور لڑکیوں اور خواتین کو اسکول آنے اور تدریسی خدمات انجام دینے کی اجازت دے دی جائے گی۔" طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال لڑکیوں کو اسکول جانے سے اس لیے روکا جا رہا ہے کیونکہ ماحول ابھی محفوظ نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز