سپریم کورٹ نے یہ تفصیلات اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت جاری کی ہیں جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت میں صرف دو معذور افراد زیر ملازمت ہیں۔ خواتین وکلا کا کہنا ہے کہ کئی عوامل خواتین کی اس کم نمائندگی کے ذمہ دار ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ 15 اکتوبر کو ایک تین رکنی بینچ جس کی صدارت چیف جسٹس قاضی فائض عیسی کر رہے تھے نے رجسٹرار کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عدالت کے اسٹاف کے حوالے سے اطلاعات ایک شہری مختار احمد علی کو جاری کرے۔ مختاراحمد علی نے اس حوالے سے پہلے ہی رجسٹرار سپریم کورٹ اور انفارمیشن کمیشن سے درخواست کی تھی، جسے مسترد کردیا گیا تھا۔
Published: undefined
ان تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں منظور شدہ آسامیاں 894 ہیں۔ تاہم ان میں سے 207 اسامیاں خالی ہیں۔ ان 45 خواتین میں 33 کی ملازمت مستقل بنیادوں پر ہے جبکہ 12 مستقل ملازم نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں خواتین کی کم نمائندگی کے مسئلے پر حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ماضی میں متعدد مرتبہ آواز اُٹھائی لیکن ملک میں خواتین لا گرجویٹس کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی ضلعی عدالتوں یا ہائی کورٹس میں ان کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں بھی خواتین کی نمائندگی تسلی بخش نہیں ہے۔
Published: undefined
کراچی سے تعلق رکھنے والی ہائی کورٹ کی ایک سینیئر وکیل عذرا اقبال کا کہنا ہے کہ معاشرتی رویہ اور بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ وہ دو بنیادی عوامل ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس شعبے میں بڑے پیمانے پہ نہیں آ رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں وکلا کی ایک بڑی تعداد اچھی خاصی پڑھی لکھی ہوتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگوں کے پاس صرف ڈگریاں ہیں۔ خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کا خوف ہے جبکہ والدین یا رشتہ دار بھی خواتین لا گریجویٹس کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘
Published: undefined
عذرا اقبال کا کہنا تھا کہ صرف وہی خواتین اس پروفیشن میں آتی ہیں جو ذہنی اور اعصابی طور پر بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ ''صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین قانون میں گریجویشن کر لیتی ہیں لیکن پریکٹس نہیں کرتیں جس کی وجہ سے ان کی ڈگری ایک طریقے سے ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
لاہور سے تعلق رکھنے والی وکیل ماریہ فاروق کا کہنا ہے کہ انہیں خواتین کی اس کم نمائندگی پہ تشویش ہے اور یہ کہ اس کم نمائندگی کی وجہ سے خواتین کی پروفیشنل گروتھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کم نمائندگی کی ایک وجہ نو آبادیاتی قانون لیگل پریکٹیشنرز ایکٹ ہے، جس میں 1932ء میں ترمیم کر کے خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے پہلے خواتین کو اس پروفیشن کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘‘
Published: undefined
ماریہ فاروق کے مطابق اس کے علاوہ ثقافتی اور سماجی تعصبات بھی خواتین وکلا کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔ ''ہمیں کچھ ہراسمنٹ کی مثالیں بھی ملتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پروفیشن خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے جب تک پورے نظام میں اور سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں ہوتی اور بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء برادری اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، خواتین وکلاء کی مناسب نمائندگی مشکل رہے گی۔‘‘
Published: undefined
ماریہ فاروق کا مزید کہنا ہے کہ تاریخی عوامل بھی اس حوالے سے پیش نظر رکھنے چاہیے۔ ان کے بقول،'' تاریخی طور پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور سول کورٹس پہ ہمیشہ سے مردوں کا تسلط رہا۔ اسی لیے وکلاء اور ججز کی ایک بڑی تعداد بھی مردوں میں ہی سے لی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدلیہ میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ جبکہ ریڈرز، اسٹینوگرافرز اور اسٹاف کے دوسرے لوگ بھی زیادہ تر مرد ہی ہیں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں پسماندہ علاقوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے ملازمتوں اور دوسرے شعبوں میں جگہ دی گئی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ اس خلا کو بھی پر کرنے کے لیے خواتین کا عدالتوں میں کوٹہ مختص ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''موجودہ چیف جسٹس نے ایک عورت کو سپریم کورٹ کا رجسٹرار بنا کر ایک مثبت کام کیا ہے۔ ملازمتوں کے معاملے میں اگر خواتین میرٹ پر اترتی ہیں اور ٹریننگ کے بعد وہ عدالت یا عدالتی اسٹاف کا حصہ بن سکتی ہیں، تو خواتین کے لیے کوٹہ مختص کر کے ایسا کیا جانا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
سدرہ ہمایوں کے مطابق عدالتوں میں خواتین ججوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین سائلین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ''اگر نچلی عدالتوں میں خواتین ججوں اور عدالتی عملے میں ان کی مناسب تعداد ہوگی تو سائلین خواتین کے لیے بہت آسانی ہوسکتی ہے۔ عدالتوں میں ہر جگہ مرد ہی مرد موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے خواتین سائلین اپنا مدعا سماجی و ثقافتی عوامل اور مردوں کی موجودگی کی وجہ سے درست طریقے سے بیان نہیں کر پاتیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز