جرمن وزارت انصاف ملک میں کاروباری اداروں کے دیوالیہ پن سے متعلق ایک نئے قانون کی منظوری کی خواہش مند تھی۔ اس یورپی ملک میں ریاستی، معاشرتی اور قانونی سمیت ہر سطح پر صنف کی بنیاد پر مردوں اور عورتوں کے مابین تفریق یا کسی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Published: undefined
اس لیے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ہر شعبے میں قانونی اور عوامی سطح پر بھی زبان ایسی استعمال کی جائے، جو ماضی میں مردوں کی روایتی صنفی برتری والے رویوں یا پدر شاہانہ سوچ کی عکاس نہ ہو۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن زبان میں کسی بھی مذکر اسم کے آگے -in لگا کر اس کی مؤنث شکل بنائی جاتی ہے۔ تو اس مسودہ قانون میں بھی دیوالیہ پن کے خطرے کے شکار کسی بھی ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے مینیجر کے ساتھ ساتھ لفظ 'مینیجرِن‘ (Managerin) بھی لکھ دیا گیا۔ یہی بات اس بارے میں بحث کی وجہ بنی۔
Published: undefined
اس مسودہ قانون کی تیاری کے دوران وفاقی وزارت انصاف نے وفاقی وزارت داخلہ سے بھی رابطہ کیا تھا، جس نے اعتراض یہ کیا کہ کسی بھی ادارے کے مینیجر سے مراد مرد بھی ہوتا ہے اور عورت بھی۔ انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس عہدے پر فائز فرد کی صنف کیا ہے۔ لیکن اس کا 'مرد مینیجر‘ اور 'خاتون مینیجر‘ کے طور پر بالخصوص اس قانونی بل میں ذکر کرنا اس عمل کے اصولاﹰ درست ہونے کے باوجود 'تکنیکی طور پر ایک پیچیدہ بات‘ ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
وفاقی جرمن وزارت داخلہ کا اعتراض یہ تھا کہ اگر تمام ملکی قوانین کے متن میں ہر جگہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی لکھنا شروع کر دیا جائے، تو یہ اتنا بڑا اور وقت طلب کام ہو گا کہ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی اور پھر ہر قانون کے متن میں کی جانے والی کوئی معمولی سی ترمیم بھی پارلیمان سے نئے سرے سے منظور کروانا پڑے گی۔
Published: undefined
چانسلر میرکل کی حکومت چونکہ یہ نیا مسودہ قانون زیادہ تاخیر کیے بغیر منظور کروانا چاہتی تھی، اس لیے فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس قانونی بل کے متن میں 'خواتین مینیجر‘ (Managerin) کا لفظ اور لسانیاتی حد تک صنفی مساوات کی کوشش کی عکاس ایسی تمام تراکیب بدل کر دوبارہ 'یک صنفی‘ یا 'مرادانہ‘ کر دی جائیں، مثال کے طور پر 'اگر کسی ادارے کا مینیجر یہ فیصلہ کرے ۔ ۔ ۔‘ وغیرہ وغیرہ۔
Published: undefined
Published: undefined
متن میں اس لسانیاتی ترمیم کے بعد مجوزہ قانون کے اس مسودے کو جرمن کابینہ کے بدھ چودہ اکتوبر کو ہونے والے ایک اجلاس میں منظور بھی کر لیا گیا۔ اب یہ بل وفاقی پارلیمان میں پیش کیا جائے گا، تاکہ جلد منظوری کے بعد کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصانات کا احاطہ کرتے ہوئے کاروباری اداروں کے ممکنہ دیوالیہ پن کے حوالے سے میرکل حکومت کے اقدامات کو قانونی شکل دی جا سکے۔
Published: undefined
وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مطابق یہ بات درست ہے کہ کسی بھی معاشرے میں قانون سازی کے لیے استعمال ہونے والی زبان کو سماجی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہونا چاہیے۔
Published: undefined
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب تک معاشرتی سطح پر اتنی تبدیلی نہیں آئی کہ جرمن زبان میں 'مینیجرِن‘ کہہ کر اس سے مراد مرد اور خواتین دونوں لی جائے۔ اس کے برعکس جب 'مینیجر‘ کہا جاتا ہے تو اس لفظ کے مذکر ہونے کے باوجود اس سے مراد کوئی مرد بھی ہوتا ہے اور خاتون بھی۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت 'دی لِنکے‘ کے خواتین سے متعلقہ امور کے ترجمان پارلیمانی ارکان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس قانون سازی کے دوران جو کام پہلی بار روایت سے ہٹ کر اور زیادہ بہتر طور پر کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مسودے کی زبان کی صورت میں وہ کاوش اس بل کی پارلیمانی منظوری سے پہلے ہی ترک کر دی گئی۔
Published: undefined
تاہم ان دونوں جماعتوں نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا ہے کہ جرمنی میں کم از کم ملکی قوانین کی زبان اور پارلیمانی دستاویزات میں 'عمومی مردانہ لہجے‘ کے خاتمے کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں سرکاری زبان میں generic masculine کا استعمال بتدریج کم ہوتا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز