لیکن اب افغانستان میں طالبان کی واپسی کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور اس ملک کے آخری یہودی نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کابل کے واحد کنیسہ میں ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں کیوں رکوں، وہ مجھے کافر کہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
دارالحکومت کابل کے وسط میں واقع ایک پرانی عمارت یہودیوں کا عبادت خانہ ہے، جہاں یہ اکثر اکیلے ہی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں۔ زابلون سیمینتوف کا مزید کہنا تھا، ''میں افغانستان کا واحد اور آخری یہودی ہوں۔ میرے لیے یہاں اب مزید بُرا ہو سکتا ہے۔ اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو میں افغانستان چھوڑ کر اسرائیل روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘
Published: undefined
اب ایسے امکانات بھی ہیں کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ امریکا ستمبر تک اپنے تمام تر فوجی یہاں سے نکال لینے کا اعلان کر چکا ہے اور طالبان کے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
زابلون سیمینتوف انیس سو پچاس کی دہائی میں مغربی شہر ہرات میں پیدا ہوئے تھے لیکن انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت حملے کے بعد انہیں کابل منتقل ہونا پڑا کیوں کہ یہ اس وقت قدرے پرامن شہر تھا۔
Published: undefined
یہودی افغانستان میں 2500 سال سے زیادہ عرصے تک مقیم رہے۔ ہرات شہر میں یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ وہاں اب بھی یہودیوں کے چار عبادت خانے کھڑے ہیں، جو اس برادری کی قدیم موجودگی کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں یہودیوں نے یہاں سے بتدریج نقل مکانی شروع کی اور ان میں سے کئی اب اسرائیل میں آباد ہیں۔
Published: undefined
اب گزشتہ کئی عشروں سے صرف زابلون سیمینتوف کا خاندان ہی باقی بچا ہے۔ ان کی اہلیہ اور دو بیٹیاں بھی ہیں۔ انہیں اب یقین ہے کہ وہ اس ملک میں آخری افغان یہودی ہوں گے۔
Published: undefined
روایتی افغان لباس پہنے اور سر پر کیپہ رکھے ہوئے زابلون پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوویت حملے سے پہلے کا دور اس ملک کے لیے بہترین وقت تھا، ''اس وقت تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی حاصل تھی اور سب ہی کو افغان ہونے پر فخر بھی تھا۔‘‘
Published: undefined
لیکن اس کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہی ہوتے گئے لیکن وہ سب سے نالاں طالبان کے دور حکومت سے ہیں، جو سن انیس سو چھیانوے سے سن دو ہزار ایک تک رہا۔ انہیں بھی اس وقت زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کی گئی۔ وہ بتاتے ہیں، ''طالبان کی اس رسوا حکومت نے مجھے چار بار جیل میں ڈالا۔‘‘
Published: undefined
ان کا غصے میں کہنا تھا کہ طالبان نے ایک مرتبہ تو بہت کچھ توڑ ڈالا تھا، ایک سفید رنگ کا بڑا کمرا تھا اور اس کے دوسرے سرے پر قربان گاہ تھی، وہاں عبرانی متن میں کتابیں پھاڑ دیں، نو بازُوٴوں والے شمع دان کو توڑ دیا اور قدیم توریت کو بھی چھین لیا۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ''طالبان نے کہا تھا کہ یہ اسلامی امارات ہے اور یہاں یہودیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔‘‘ لیکن اس کے باوجود وہ افغانستان میں ہی رہے۔
Published: undefined
عبادت گاہ کے فرش کو چومتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''میں مزاحمت کرتا رہا۔ میں نے یہاں موسیٰ کے مذہب کو بلند کیا ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس کنیسہ میں یہودیوں کے نئے سال 'روش ہاشاناہ‘ اور 'یوم کپور‘ منانے کی روایت کو برقرار رکھا اور کبھی کبھار تو ان کے مسلمان دوست بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر میں نہ ہوتا تو یہ عبادت خانہ ابھی تک دس سے بارہ مرتبہ آگے سے آگے فروخت ہو چکا ہوتا۔‘‘
Published: undefined
قریب ہی رہائش گاہ کے ایک کمرے کے کونے میں ایک میز ہے، جس پر چند کتابیں اور ان کی بیٹیوں کی چند پرانی تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں امید تھی کہ طالبان کے بعد اس ملک میں خوشحالی لوٹ آئے گی، ''میرا خیال تھا کہ یورپی اور امریکی یہاں کے مسائل ختم کر دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘‘
Published: undefined
زابلون سیمینتوف کے ہمسائے بھی افسردہ ہیں کہ وہ یہاں سے چلے جائیں گے۔ کنیسہ کے بالکل سامنے ایک گروسری دکان کے مالک شاکر عزیز کا کہنا تھا،'' یہ ایک اچھا انسان ہے۔ یہ بیس برسوں سے مجھ سے ہی سودا سلف لیتا ہے۔ اگر یہ جائے گا تو میں اس کی غیرموجودگی کو یقیناﹰ محسوس کروں گا۔‘‘
Published: undefined
لیکن زابلون سیمینتوف اپنے مستقبل سے پریشان ہیں، ''طالبان آج بھی بالکل ویسے ہی ہیں، جیسے اکیس برس پہلے تھے۔ میں افغانستان سے ناامید ہو چکا ہوں، یہاں کوئی زندگی باقی نہیں بچی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined